سابق چیئرمین چوہدری ذکاء اشرف نے اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی سنبھالی ہے جب پاکستان کو ایک بار پھر بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے ہیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور پاکستان اپنامقدمہ عالمی میدان میں بھی ماضی کی نسبتا دفاعی انداز میں لڑتا نظر آرہا ہے۔ جس کا ثبوت حال ہی میں
ایشیاء کپ کی میزبانی کی ہائبرڈ ماڈل کا تجویز کرنا ہے جس کے تحت ٹورنامنٹ کی میزبانی تو پاکستان کےپاس ہے لیکن صرف ایسوسی ایٹس ٹیمیں ہی پاکستان آکر میچیز کھیلیں گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ابتداءمیں ہائبرڈ ماڈل کی تجویز اس شرط پر دی تھی کہ پاکستان ورلڈ کپ بھی ہائیبرڈ ماڈل پر کھیلے گا ،تاہم دیگرممالک کی سپورٹ نہ ہونے کے سبب پاکستان کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا اور چار میچزپاکستان میں میزبانی کے بدلے انڈیا میں ورلڈ کپ کھیلنے پر آمدگی ظاہر کی۔
پی سی بی کی اس دفاعی حکمت عملی پر سابق کرکٹرز اور شائقین نے بھی شدید تنقید کی ہے۔
پی سی بی کی نئی انتظامیہ کو درپیش چینلجز:
پی سی بی کی نئی انتظامیہ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج پاکستان کو کرکٹ کی دنیا میں عالمی تنہائی سےباہر نکالنا ہوگا۔ ذکاء اشرف کرکٹ سفارتکاری کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور ان کو وزارت خارجہ کی مکمل حمایت بھی حاصل ہوگی، اس صورتحال میں وہ بہتر حکمت عملی بنا کر پاکستان کو اس آئسولیشن سے باہرنکال سکتے ہیں۔
کرکٹ کے شائقین ایک طویل عرصے سے پاکستان اور بھارت کی دوطرفہ کرکٹ سیریز کا انتظار کررہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان آخری دوطرفہ سیریز 2012-13 میں ہوئی تھی، اس وقت بھی ذکاء اشرفپاکستان کرکٹ بورڑ کے چیئرمین تھے۔
نئی پی سی بی انتظامیہ کو پاکستان کرکٹ کے حقوق کے لیے جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی تاکہپاکستان کرکٹ کو اسکا جائز حق مل سکے۔
اس کے علاوہ نئی مینجمنٹ کمیٹی کے سامنے 2014 کی آئین کی مکمل بحالی کا ٹاسک بھی ہوگا جس میںریجنز اور ایسوی ایشنز کے شفاف انتخابات کا انعقاد اور ماضی میں کلبز کی سکروٹنی میں کی گئی مبینہبے ضابطگیوں کا چیلنج درپیش ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں حال میں ہونے والی عدم استحکام کے سبب بورڈ حکام اور کھلاڑیوںمیں پائے جانی والی غیر یقینی صورتحال کا تدارک اور پر اعتماد انداز میں کرکٹ کو آگے بڑھانے کا ٹاسکبھی ان کے سپرد ہوگا۔