پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق سینیٹر سحر کامران نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہو ئے کہا ہے کہ اگلے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی پورے ملک سے واضح اکثریت حاصل کرے گی اور ہمارے ہاں قیادت پر کوئی ابہام نہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے اگلے وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہوں گے۔
کیا بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری کی سیاست میں کوئی فرق ہے؟
اس سوال کے جواب میں سحر کامران نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے اندر مسلسل مشاورت کا عمل جاری رہتا ہے اور مرکزی مجلس عاملہ کے تمام ارکان پرزور طریقے سے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کے فیصلوں میں اجتماعی دانش بروئے کار آتی ہے اور اسی کی بنیاد پر تمام فیصلے کیے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر جانے والے بڑے ناموں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو لوگ پارٹی چھوڑ کر گئے انہوں نے اپنی شناخت گم کر دی۔
کیا دبئی میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی ملاقات ہوئی؟
اس پر سحر کامران نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی خبریں سامنے نہیں آئیں اور آصف علی زرداری کا یہ اسٹائل نہیں کہ وہ خفیہ ملاقاتیں کریں۔ سیاسی قائدین آپس میں ملاقاتیں کرتے ہیں اور اس میں کوئی ایسی عجیب بات نہیں لیکن جو اطلاعات ہمارے پاس ہیں اس کے مطابق ایسی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
2018 میں پاکستان تحریک انصاف کو کراچی سے نشستیں دلوائی گئیں
سحر کامران نے کہا کہ سنہ 2018 کے انتخابات میں جو کچھ ہوا اب سب سامنے آ چکا ہے کہ کس طرح سے آر ٹی ایس سسٹم بیٹھا۔ ان انتخابات کو مینیج کیا گیا تھا جس کا جواب ضمنی الیکشن میں سامنے آ گیا۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی نتائج پر شدید تحفظات کے باوجود پیپلز پارٹی نے وہ رویہ اختیار نہیں کیا جو آج پاکستان تحریک انصاف یا جماعت اسلامی اختیار کر رہی ہے۔ ہم تمام تحفظات کے باوجود پارلیمنٹ میں بیٹھے کیوں کہ ہم جمہوری نظام کا تسلسل چاہتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کا ورکر فعال ہے جس کا مظاہرہ آپ نے ضمنی الیکشن میں بھی دیکھا، بلدیاتی الیکشن میں دیکھا اور اب عام انتخابات میں دیکھیں گے۔
کراچی میئر کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے پیپلز پارٹی پر دھاندلی کے الزام لگائے
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سحر کامران نے کہا کہ پہلی بار جب کراچی میں جماعت اسلامی کا میئر منتخب ہوا تھا تب بھی جماعت اسلامی نے دھاندلی کی تھی۔ ابھی جماعت اسلامی کو اس وجہ سے موقع ملا کیوں کہ ایم کیو ایم نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ڈپٹی میئر کی نشست کی پیشکش کی۔ پیپلز پارٹی جماعت اسلامی کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتی ہے اور اگر وہ صوبے اور شہر کی فلاح کے ساتھ مخلص ہیں تو انہیں ہمارے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔
سندھ کی پسماندگی صرف ایک پروپیگنڈا ہے
سحر کامران نے کہا کہ سندھ کی پسماندگی کے بارے میں پھیلایا جانے والا تاثر ایک منظم پروپیگنڈا ہے۔ دل کے امراض کے حوالے سے سب سے بڑا علاج کا نظام سندھ میں ہے، ایشیا کا سب سے بڑا ٹراما سنٹر سندھ میں ہے، سائبر نائف ٹیکنالوجی سندھ میں ہے، تھر کول سے بجلی بنا کے سندھ دے رہا ہے، ریونیو کا ٹارگٹ سندھ پورا کرتا ہے لیکن سندھ کی پسماندگی کا تاثر پیدا کرنے کا مقصد دیہی اور شہری سندھ کو تقسیم کرنا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بدترین سیلابوں کے بعد سندھ حکومت نے سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے کام کیا اور اب وہ دوسری فصل اٹھا رہے ہیں یہ کسی کو نظر نہیں آتا صرف کوئی پسماندہ سی تصویر اور ویڈیو دکھا کر سندھ کو ایک پسماندہ صوبہ دکھا دیا جاتا ہے۔
انہوں نے ایک واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں عمران خان کو آصف زرداری کے بارے میں بہت غلط باتیں کرتے ہوئے سنا تو کہا کہ ہمیں بھی عمران خان کی زندگی کی بارے میں اس طرح کی باتیں کرنی چاہیں لیکن آصف زرداری نے کہا کہ ہم اخلاقیات سے نیچے نہیں گر سکتے۔
کیا پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس اس پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے وسائل نہیں؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کچھ اقدار پر یقین رکھتی ہے۔ ہم دوسروں کی تضحیک کرنا پسند نہیں کرتے بلکہ رواداری پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے میڈیا کو بھی اس کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ سندھ کے لیے کبھی 1100 ارب کبھی 268 ارب کے اعلانات ہوتے ہیں لیکن وہ پیسے ملتے نہیں ہیں لیکن ان چیزوں کو میڈیا نمایاں کوریج نہیں دیتا۔ ہم نے بلین ٹری سونامی پروپیگنڈا کے بغیر مینگرووز جنگلات اگانے میں عالمی ریکارڈ بنایا ہے لیکن میڈیا میں ہماری کاوشوں کو نمایاں طور پر مشتہر نہیں کیا جاتا۔
سحر کامران پیپلز پارٹی میں کیسے شامل ہوئیں؟
انہوں نے بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ایک نظریاتی جماعت ہے اور اس میں شامل ہونے کے لیے آپ کو اس کے نظریات کو سمجھنا اور ان سے متفق ہونا پڑتا ہے۔ وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی سحر انگیز شخصیات سے بہت متاثر تھیں اور ایک غیر سیاسی مڈل کلاس گھرانے سے تعلق تھا تو پیپلز پارٹی کے لیے کام کیا اور پھر ایک مقام حاصل کیا۔
ان کے والد کو بطور سول انجینئر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور 1988 کے انتخابات میں محترمہ بینظیر بھٹو چاہتی تھیں کی وہ پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑیں لیکن کم عمری کی وجہ سے وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے پائیں۔ اس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نے انہیں اسلام آباد بلا لیا اور پھر وہ ان کے ساتھ انہیں کام کرنے کا موقع ملا۔ سحر کامران کو کراچی یونیورسٹی میں پیپلزپارٹی کے طلبا ونگ میں کام کرنے کا موقع بھی ملا۔
پیپلز پارٹی محترمہ بینظیر بھٹو کے نظریات پر کاربند ہے
سحر کامران نے بتایا کہ موجودہ پیپلز پارٹی شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے نظریات پر کاربند ہے اور انہی کو لے کر آگے چل رہی ہے۔ ان کی محترمہ بینظیر بھٹو شہید سے پہلی ملاقات سنہ 1986 میں ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ شہید محترمہ ایک طلسماتی شخصیت کی حامل تھیں اور وہ خود ایک نظریہ تھیں۔
9 محترمہ بینظیر بھٹو کا لکی نمبر تھا
سحر کامران نے بتایا کہ اگر کوئی مجھ سے کہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی واپسی کا سفر 18 اکتوبر 2007 کو شروع ہوا تو میں کہتی ہوں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ان کی واپسی کا سفر 18جون 2007 میں شروع ہوا جب انہوں نے عمرہ کی ادائیگی کی اور پھر گاڑی میں بیٹھتے ہی کہا کہ اللہ کا شکر ہے ہم نے عمرہ ادا کر لیا۔ یہ 18 جون اور سال 2007 ہے، اس کے اعداد کو جوڑیں تو نمبر 9 بنتا ہے جو میرا لکی نمبر ہے۔ اسی لیے محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2007 میں پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا۔ شہید بے نظیر کو پاکستان سے بے حد محبت تھی جو ان کے رنگوں کے انتخاب، ان کی سوچ اور ان کے شعور سے جھلکتی تھی۔
بے نظیر بھٹو پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک وژن رکھتی تھیں
سحر کامران نے بتایا کہ جون 2007 میں عمرہ کی ادائیگی کے وقت وہ بینظیر بھٹو کے اندر ایک بھرپور جذبہ تھا، ایک مکمل تیاری کے ساتھ وہ پاکستان آ رہی تھیں، وہ نوجوانوں، کسانوں، طالب علموں کے لیے کام کرنا چاہتی تھیں اور پاکستان کو مسائل سے باہر نکالنا چاہتی تھیں۔ 17 اکتوبر 2007 کو واپسی سے ایک دن پہلے جب انہوں نے پریس کانفرنس کی تو تب بھی میں ان کے ساتھ تھی اور پھر 18 اکتوبر 2007 کو جب وہ واپس آئیں تب بھی میں ان کے ساتھ تھی۔ وہ چاہتی تھیں کہ اگر ان کو شہید کر دیا جائے تو وہ اپنے لوگوں کے ساتھ ہوں اور میرے خیال سے ایسی ہی کسی قبولیت کی گھڑی میں ان کی دعا قبول ہوئی۔
میں بھی 18 اکتوبر کے دھماکے میں زخمی ہو ئی تھی
سحر کامران نے بتایا کہ 18 اکتوبر کے دھماکے میں وہ خود بھی زخمی ہو گئی تھیں لیکن اس کے بعد بھی بےنظیر بھٹو نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ ہر زخمی اور ہر شہید کے گھر گئیں۔
آصف علی زرداری وفا کا پیکر
سحر کامران کہتی ہیں کہ آصف علی زرداری صحیح معنوں میں وفا کے عملی پیکر ہیں اور انہوں نے بے نظیر بھٹو کے ایک ایک وعدے اور سوچ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ مفاہمت کی پالیسی شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی تھی۔ وہ سنہ 2005 میں سعودی عرب آئیں اور نواز شریف سے ملیں اور پھر اس کے بعد لندن میں میثاق جمہوریت ہوا۔ مفاہمت کی سوچ بینظیر بھٹو کی تھی جس سوچ کو آصف علی زرداری آگے لے کر چلے۔
پیپلز پارٹی کا ان انتخابات میں کیا منشور ہو گا
سحر کامران نے کہا کہ پیپلزپارٹی اپنے بنیادی منشور سے نہیں ہٹی۔ عوام کی ضروریات ملک میں امن اور خوشحالی ہمارے منشور کا حصہ ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی حالیہ میٹنگز کے اندر جس طرح سے ملک کی معاشی بحالی کا منصوبہ پیش کیا ہے اس میں زیادہ توجہ زرعی شعبے پر ہے جو ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپٹما اور کاروباری طبقے کے ساتھ ملاقاتیں کی جس کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں اپنی ملکی صنعت کو مضبوط کرنا ہے۔
نگران حکومت
نگران سیٹ اپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اتحادی جماعتوں کے درمیان مشاورت ہو گی اور وزیراعظم شہباز شریف اپنی جماعت کے اندر بھی مشاورت کریں گے۔ نگران حکومت ایک مختصر مدت کے لیے قائم ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیئے اور اس بات کے لیے پیپلز پارٹی نے قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کو نااہل کیا گیا لیکن تب بھی اسمبلی نے اپنی مدت پوری کی اور پھر اس کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت میں بھی اسمبلی نے اپنی مدت پوری کی۔