یورپی ملک سویڈن میں قرآن کی بےحرمتی کرنے والا فرد عراقی نژاد سلوان مونیکا کے طور پر شناخت کیا گیا ہے۔
سویڈش میڈیا کی رپورٹس کے مطابق یہ واقعہ اچانک نہیں ہوا بلکہ سلوان مونیکا نے پہلے پولیس سے اجازت مانگی مگر مثبت جواب نہ ملا تو عدالت سے رجوع کیا۔
ماضی میں نازی نظریات کی حامی تسلیم کی جانے والی جماعت کی زیر قیادت سویڈن کی عدالت پہنچنے والا سلوان مونیکا پانچ برس قبل عراق سے سویڈن پہنچا تھا۔
سلوان مونیکا نے تین ماہ تک عدالت میں قرآن کی بےحرمتی کی اجازت ملنے کا مقدمہ لڑا اور پھر عین عید کے روز مسجد کے سامنے یہ نفرت انگیز گھناؤنی حرکت کی۔
خود کو ملحد بتانے والے سلوان مونیکا نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا تھا کہ اس کے پاس سویڈش شہریت ہے۔
قرآن اور دیگر کتابیں جلانے کے لیے مزید درخواستیں
سویڈن کے سرکاری خبر رساں ادارے ایس وی ٹی کی جانب سے بدھ کو نشر کی گئی رپورٹ کے مطابق پولیس کو مذہبی کتابیں جلانے کی اجازت کے لیے تین مزید درخواستیں دی گئی ہیں۔
پولیس کو ایک درخواست 50 برس کی خاتون کی جانب سے دی گئی ہے جس میں اس نے اسٹاک ہوم کی مسجد کے سامنے قرآن جلانے کی اجازت مانگی ہے۔
دوسری درخواست ایک 30 سالہ فرد کی جانب سے دی گئی ہے جس میں 15 جولائی کو اسرائیلی ایمبیسی کے سامنے تورات اور انجیل جلانے کی اجازت مانگی گئی ہے۔
سویڈن میں قرآن نذر آتش کرنے کے واقعات بار بار کیوں ہوتے ہیں؟
عیدالاضحی کے روز عین نماز عید کے وقت اسٹاک ہوم کی مسجد کے سامنے قرآن نذر آتش کیا جانا پہلا موقع نہیں کہ سویڈن میں قرآن کی بےحرمتی کی گئی ہے۔
رواں برس جنوری میں اور اس سے قبل 2020 میں بھی مسلمانوں کی مقدس الہامی کتاب قرآن کو جلایا گیا تھا۔
سویڈن میں ہونے والے ان مذموم کاموں کا ایک عجیب پہلو یہ ہے کہ ایسا کرنے والے اسے اظہار رائے کی آزادی کہتے ہیں البتہ اس نفرت انگیز عمل کے لیے قصدا ایسا پر اشتعال طریقہ اپناتے ہیں جس میں مسلمانوں کو براہ راست ہدف بنایا جائے۔
ماضی میں قرآن کی بےحرمتی کرنے والے انتہاپسند سویڈن میں ترک ایمبیسی کے سامنے ایسا کر چکے ہیں۔
سویڈن نے حال ہی میں روس، یوکرین جنگ میں اپنی ماضی کی غیرجانبدارانہ پالیسی ترک کر کے نیٹو کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سویڈن میں نفرت انگیزی کا یہ عمل اچانک نہیں ہوا بلکہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ملکی رجحانات میں تبدیلی اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔
بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق ’وجود میں آنے کے بعد جیسے جیسے سویڈش سلطنت پھیلتی گئی، اسی طرح اس کے مذہبی خیالات بھی پھیلے۔ ابتدا میں سویڈن میں کیتھولک آبادی زیادہ تھی، لیکن 16ویں صدی میں یہ لوتھرن پروٹسٹنٹ ملک بن گیا۔ سنہ 1665 میں سویڈن نے اُس مذہب کو غیر قانونی قرار دے دیا جس پر وہ پہلے عمل پیرا تھا اور یہ وہی وقت تھا جب کیتھولک مذہب کے ماننے والوں اور مسلمانوں کو ’حقیقی عیسائیت‘ کے دشمن کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سویڈن میں سماجی و اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ لبرل جذبہ بھی پیدا ہوا اور فی الحال ملک سیکولر قوانین کے تحت چل رہا ہے۔‘
’سویڈش اسلامک ایسوسی ایشن کے صدر عمر مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ سویڈن کے رویے میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور اب یہاں اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے جس کا اظہار انٹرنیٹ اور یہاں بسنے والے مسلمانوں کی زندگیوں میں بھی ہے۔‘
انہوں نے ’قرآن نذر آتش کرنے کے حالیہ واقعہ کے بعد مختلف نفرت انگیز سرگرمیوں جیسا کہ سویڈن کی سڑکوں پر مسلم خواتین کو ہراساں کرنا، مسلمانوں کے گھروں کو نقصان پہنچانا اور مساجد پر چھوٹے موٹے حملوں‘ کی تفصیلات بھی بتائیں۔
قطری نیوز چینل الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سویڈش افراد کی اکثریت پبلک میں مذہبی کتابوں قرآن اور بائبل کو نذر آتش کرنے پر پابندی کی خواہاں ہے۔
سویڈش نیشنل ٹیلی ویژن ایس وی ٹی کے ایک حالیہ سروے میں سامنے آنے والے نتائج کو سویڈن کے رجحانات میں بڑیت تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔
کینٹر پبلک کے سروے میں جواب دینے والے 53 فیصد افراد نے کہا کہ مذہبی کتابوں کے پبلک میں جلائے جانے پر پابندی ہونی چاہیے۔ 34 فیصد نے موقف اپنایا کہ اس کی اجازت ہونی چاہیے۔
حالیہ سروے کے نتائج رواں برس فروری میں کینٹر ہی کے کروائے گئے اس سروے سے مختلف ہیں جس میں اس قبیح عمل کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد 11 فیصد کم تھی۔