بات نکلے گی۔۔۔

پیر 10 جولائی 2023
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ریڈیو لاہور کےاسٹیشن ڈائریکٹر نے ایک پروگرام مینجر کی موجودگی میں بُلا کر جب کہا کہ “میوزک کا شعبہ آپ کے حوالے کر رہے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ آپ سنبھال لیں گے۔”

اپنے پروفیشنل کیرئر میں ایک عادت رہی ہے کہ کسی بھی نئے کام کو لینے سے نہ نہیں کرنی اور کسی ایک شعبے میں ہی جامد ہو کر نہیں بیٹھے رہنا۔لہذا چیلنج سمجھ کر ریڈیو لاہور کے شعبہِ میوزک کا چارج لے لیا اور جو اباً عرض کیا کہ “آپ کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کی جائے گی۔”

میرا یہ خیال تھا اور اب تک ہے کہ شاید کسی صلاح کار نے مشورہ دیا ہو کہ یہ بہت پاٹے خان بنتا ہے اسے یہ شعبہ دیں تاکہ اس کی طبعیت میں توازن آسکے۔ مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ بچپن سے میرے کان سُر لے سے آشنا تھے۔ میں اپنے ننھیال رہتا تھا اور ہمارے ہمسائے میں بوٹا شیخ بینڈ ماسٹر چُھٹی والے روز اپنے کلارنٹ پر مشق کیا کرتے تھے۔

ننھیالی گاؤں کی نسبت سے سارا گاؤں ہی میرا نانکا تھا۔ مامے بوٹے شیخ کی پیروی میں کبھی کبھی شیخوں کے گھر میں کبھی کبھی پورا بینڈ باجا ہی بج اُٹھتا ۔پھر کسی عید ،تہوار یا میلے پر بھولے شیخ کے ڈھول کی تھاپ پر “پھُمنیاں” ڈالنا بھی سب بچوں کی من پسند تفریح تھی۔ عید کے دنوں میں ننھیالی گاؤں جانا ہوا تو رزاق بینڈ ماسٹر کی بے وقت موت کا افسوس سرِ راہ ملنے والے پاء بھولے کے سب سے چھوٹے بھائی اور بینڈ ماسٹر مرحوم بوٹے شیخ کے بیٹے ہیرو شیخ سے کیا تو اس نے پاء بھولے کی بے وقت موت کی افسوس ناک خبر بھی سُنائی تو دل بھر آیا اور پھر مامے ناظر شیخ کے پاس ان کے گھر افسوس کرنے کے لئے بھی گیا۔

یہ وہی گھر تھا جو بچپن میں کلارنٹ، باجوں اور ڈھول کی آواز سے گونجا کرتا تھا۔ عموماً بڑی عید کے بعد بزرگ شیخوں میں سے رفیق یا شفیع نے کسی بکری کی کھال صاف کرکے سکھانے کے لئے گھر کی بیری پر لٹکائی ہوتی ۔ اس کھال کے بال صاف کرنا نمک لگانا اور سکھانا بہت پُرکشش کام لگتا۔

یادوں کا نہ رکنے والا سلسلہ چل نکلا تو یاد آیا ڈھول بجانے کا شوق تو تب کبھی پورا نہ ہوا البتہ جب کبھی ڈھول کو ہاتھ سے ہلکی تھاپ لگانا یا ڈھول پر “دَھپ “کر کے بھاگ جانا بھی بہت بڑی تفریح ہوتی گو کہ ڈھولچی کوئی بھی ہوتا وہ اس کا برا ہی مناتا۔ مڈل سکول میں جا کر پتا چلا کہ اسکولوں کا بھی بینڈ ہوتا ہے۔ یوسف جو بینڈ کو لیڈ کیا کرتا اور روز اسمبلی میں سُریلی آواز میں نعت پڑتا تھا ۔ وہ میرا تو آئیڈل تھا۔ تھوڑا بہت ڈرم تو اکثر لڑکے بجا لیتے تھے سو تھوڑا بہت ہاتھ میں نے بھی سیدھا کیا مگر بات آگے نہ بڑھ سکی۔

تحصیل ڈسکہ ضلع سیال کوٹ کا سینٹ میری ہائی سکول جامکے چیمہ جو پاکستان سے بھی قدیم تاریخ رکھتا تھا وہ میوزک اور کلچر کے حوالے سے بہت مضبوط روائت کا حامل تھا ۔ روزانہ اسمبلی میں پہلے قرانِ پاک کی تلاوت ہوتی پھر انجیل پڑھی جاتی۔ پھر سُر لے میں اعجاز ،کاشف مسیح یا کوئی اور لڑکا کلام اقبال یا ملی نغمہ لہک لہک کر گاتا۔ گانے کے دوران کاشف کا اپنی لمبی گردن کو ردھم کے مطابق دائیں بائیں کرنا آج بھی یاد ہے۔

اعجاز کے والد جو خود بھی بینڈ ماسٹر تھے اور اپنے سائز جتنا بہت بڑا باجا یا کلارنٹ بجاتے تھے۔ کئی دفعہ ہم اعجاز کو کسی کی شادی پر ڈرم بجاتے بھی دیکھتے۔ میرے کلاس فیلو سید عمران حیدر ایڈوکیٹ نے بتایا آج کل وہ ذاکر بن چُکا ہے اور اعجاز خاکی ہو گیا ہے۔

اسکول کے ساتھ ہی چرچ اور ہاسٹل تھا جہاں ملک بھر سے آئے کرسچن لڑکے رہتے تھے ۔ ہمارا کلاس فیلو عارف جوزف چرچ میں عبادت کے دوران طبلہ بجاتا تھا ۔ کلاس میں بھی اُس کی اُنگلیاں کبھی گُھٹنے پر اور کبھی ڈیسک پر طبلہ بجانے کے انداز میں تھرکتی رہتیں۔ ہفتے میں ایک روز بزمِ ادب منعقد ہوتی۔ آخر میں پی ٹی ماسٹر عنائت صاحب ہارمونیم سنبھال لیتے،جوگی والی دُھن بجاتے اور کراچی کے دو لڑکے روپ دھار کر کوبرا ڈانس کرتے ۔

کبھی چرچ جاتے تو طبلہ ہارمونیم کے ساتھ مذہبی گیت سُننے کو ملتے۔ گاؤں میں کبھی کبھار قوالی بھی دیکھنے اور سُننے کو مل جاتی، قوال نہیں تو پیچھے تالیاں بجانے والا ہی بندہ بن جائے۔ پھر ہم بچے کئی کئی روز گاہے بگاہے قوالی ہی کرتے رہتے۔ پھر گاؤں میں کسی خوشی پر کُھسرے آتے تو جس جس گھر وہ جاتے وہاں میلہ لگ جاتا۔ وہ میلہ دیکھنا اور ان کا ناچ گانا سُننا اپنی جگہ۔ ہر شادی پر لاؤڈ اسپیکر پر فلمی گانے دن رات بجتے۔ مختصر یہ کہ کان پچپن سے ہی سُر لے سے آشنا تھے۔

میری نظر میں کسی پروڈیوسر یا ڈائریکٹر کی عزت اپنے ان فن کاروں اور ان کے اس فن کے مظاہرے سے ہوتی ہے جو وہ فن کاروں سے کرواتا ہے۔ ایک تو یہ تھا کہ جیسے چلتا ہے چلتا رہے دوسرا یہ تھا کہ بہتر کام کرنے کی کوشش کی جائے لہذا تقریباً ایک سال پورا، زور لگایا کہ کسی طرح کوالٹی میوزک پروڈیوس ہو سکے۔

 

اکمل شہزاد گھمن ،شوکت علی، حامد رانا۔ فوٹو اکمل شہزاد گھمن

فن کاروں کی عزت کی جائے، کسی سے کھانے کے بجائے اسے کھلایا ہی جائے سب سے بڑھ کر میرٹ پر جو کسی کا حق بنتا ہے وہ دیا جائے۔ ان سب کاموں میں کسی حد تک کامیابی بھی ہوئی۔ ایک سال پی ٹی وی رہ کے آیا تو دوبارہ یہی شعبہ ملا۔ اس زمانے میں بھی اپنے وقت کے تمام بڑے کلاسیکل گویّے جیسے استاد غلام حسن شگن اورقادر شگن ،استاد تصدق علی جانی اور ان کے بیٹے سعادت علی خاں، استاد حسین بخش گلو،ان کے بیٹے سورج، چاند خان، میکال حسن بیڈ فیم پاپ سنگر جاوید بشیر کے استاد اور چچا مبارک علی خان ، شام چوراسی فیملی کے اُستاد شفقت سلامت علی خاں،شرافت علی خان اور ان کا بیٹا شجاعت علی خاں، پٹیالہ گھرانے کے حامد علی خاں، اُستاد ریاض اور امتیاز علی خاں ،اور فخرِ موسیقی استادوں کے استاد غلام حیدرخاں جن کی آواز تو صاف نہیں تھی ویسے بہت گُنی تھے، ایسےسب لوگ ریڈیو لاہور کو اپنی سُروں سے رونق بخشتے۔

گوالیار گھرانے کے فرزند مسلم شگن نوجوان اور ابھرتے ہوئے کلاسیکل گائیک ہیں وہ استاد غلام حسن شگن کے پوتےہیں ،ان دنوں وہ چھوٹا معصوم سا لڑکا ہوتا تھا۔ وہ استاد صاحب کے ساتھ گاتا تو خال خال ہی تھا مگر انھیں گاتے ہوئے دیکھتا رہتا تھا۔ یہ بھی سکھلائی کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔

انسٹرومنٹلسٹ فن کاروں میں بھی بڑے بڑے لوگ تھے جیسے ستّار نواز استاد لطیف خاں تو ریڈیو کے پکے ملازم تھے پھر ان کی شاگرد، اعتزاز احسن کے بھانجھے بیرسٹر سلمان چیمہ کی بیگم زارا سلمان چیمہ ، استاد شریف خاں پونچھ والے کے بھانجے استاد اعجاز نبی خان جو بعد میں لمبا عرصہ آفتاب اقبال کے پروگرام خبر ناک کا بھی حصہ رہے،استاد رئیس خاں کے شاگرد استاد مظفر اکبر خاں ، اپنے ستّار پر راگ ریکارڈ کرواتے۔

فراز بٹ انڈین شو میں اداکارہ کترینہ کیف کے ساتھ

سارنگی نواز استاد اسرار نبی خاں اور زوہیب علی خاں۔ اسی طرح کلارنٹ نواز جعفر خاں جو بعد میں کوک سٹوڈیو میں بھی اپنی کلا کا جادو جگاتے رہے۔ کبھی دوسرے شہروں سے بھی کئی فن کار این او سی لے کر آ جاتے ۔ پنڈی سے کلارنٹ نواز استاد میاں خاں، سارنگی نواز اسدااللہ رکھا خاں صاحب ،حیدر آباد سے گوالیار گھرانے کے نامور کلاسیکل گویّے استاد فتح علی خاں حیدر آبادی اور اسی طرح دوسرے۔

گیت غزل کے لئے، فدا حسین، انور رفیع، اے نیّر محسن شوکت علی، حنا نصراللہ ،فراز بٹ، سارہ رضا، طالب چشتی کا لکھا ہوا اپنےوقت کا بہت ہی مشہور گیت “گندلاں توڑ دیے مٹیارے نی” گانےوالے لال دین شہبازی، کامی خاںسمیت اپنے وقت کے کئی نامور گلو کار بھی گانے کے لئے آتے۔

سجاد بیلا اداکارہ ریشم کے ہمراہ۔ فوٹو: سجاد بیلا

لیکن ایسے گلو کار کم ہی آتے جن کے حالات بہت بہتر ہوچکے تھے۔ شیڈول میں ہونے کے باوجود کسی دن کوئی گلو کار نہ آنے پاتا تو عموماً حامد علی بیلا کا بیٹا سجاد بیلا گانا گا لیتا تا کہ دوسرے فن کاروں جیسے موسیقار، یار سنگتیوں کی دیہاڑی خراب نہ ہو۔

ہمارے پاس جو کنٹریکٹ کی بُنیاد پر فن کار کام کرتے تھے اُن میں سجاد بیلا بھی تھے، جو ویسے تو کمال ڈھولک پلیئر تھے لیکن اچھا گا بھی لیتے تھے۔ کُچھ پکے ملازم فن کاروں میں معروف فوک سنگر شوکت علی کے بڑے بھائی بانسری نواز بھائی عنایت علی چھلّا بھی تھے ۔ معروف کمپئرمرحوم پروفیسر عباس نجمی نے ایک دفعہ بتایا کہ سب سے پہلے چھلا عنائت علی نے گایا تھا ۔ بعد ازاں چھوٹے بھائی شوکت علی نے بھی گایا تو وہ بھی بہت مشہور ہو گیا، لیکن عنائت علی نے کوئی دعویٰ کرنے کے بجائے وہ گانا ہی چھوڑ دیا اور کسی ناراضی کا اظہار بھی نہیں کیا۔ در اصل مرحوم عنائت علی صاحب بہت محبت کرنے والے فن کار تھے دونوں بھائی ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ عنائت علی ،شوکت علی ،ان کی اگلی پیڑھی میں راحت عنائت جو خود بہت اعلیٰ بانسری نواز ہیں اور بہت نامی گرامی فن کاروں،فریدہ خانم،استاد رئیس خاں اور بلقیس خانم،غلام علی، مہدی حسن، حدیقہ کیانی، علی حیدر، صنم ماروی اور سجاد علی، نیّرہ نور، شازیہ منظور کے ساتھ پرفارم کر چکے ہیں۔

سجاد بیلا معروف گلوگار سجاد علی کے ساتھ

علاوہ ازیں کئی بڑے ٹی وی چینیلز کے ٹائٹل میوزک بھی راحت کے بنائے ہوئے ہیں۔ وہ کئی بالی  اور ہالی وڈ فلموں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں ۔اسی طرح محسن اور عمران شوکت بہت عمدہ فن کار ہیں۔ یہ سارا گھرانہ بہت مؤدب اور گُنی ہے۔ عموماً فن کار ایک دوسرے کے بارے میں اشارتاً تنقیدی بات کر جاتے ہیں لیکن یہ گھرانہ کسی کی بد خواہی نہیں کرتا۔ یہ سب سلام سے پہلے بھی بسم اللہ کرتے ہیں۔

ریڈیو اور پی ٹی وی میں فن کاروں کی درجہ بندیاں ہوتی ہیں اور اسی کے تحت انھیں ادائی کی جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ حسین بخش گُلو صاحب کے کومل سُروں کے مالک بیٹوں سورج اور چاند خاں، سارنگی نواز، زوہیب حسن، کو ڈبل اے کیٹیگری دلوانے کا اعزاز مجھے ملا۔

اسی طرح فراز بٹ جس نے میوزکالوجی میں این سی اے سے بیچلر کیا اور ریڈیو کے چکر لگاتا رہتا تھا اسے ریڈیو میں گانے کا موقع بھی بطور پروڈیوسر میں نے دیا۔ بعد ازاں فراز بٹ انڈیا میں ہونے والے ٹی وی پروگرام سا ر ے گاما پاء کے ٹاپ ٹین تک گئے اور بہت نام کمایا۔

فراز بٹ بالی ووڈ اداکاروں کے ساتھ

فراز بٹ معروف نعت خوں اُستاد اعظم چشتی کے خاندان سے نسبت رکھتے ہیں۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ بتاتا چلوں کہ میں قومی ایوارڈز میرٹ پر ملنے یا نہ ملنے پر بات کرنا چاہ رہا تھا اور خاص طور پر یہ ذکر مقصود تھا کہ سیّاں چوہدری جیسی سینئر گلو کارہ کو ابھی تک پرائڈ آف پر فارمنس نہیں مل سکا مگر بات کہیں کی کہیں نکل گئی اور اصل مدعا بیان ہی نہیں کر سکا ۔ اب یہ قارئین پر منحصر ہے یہ بات چیت انھیں اچھی لگتی ہے یا نہیں ؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp