9 مئی کے تشدد واقعات اور توڑ پھوڑ کے بعد خیبر پختونخوا میں بھی پولیس اور ریاستی اداروں نے تحریک انصاف کے رہنماوں کے گرد گھیر ا تنگ کر رکھا ہے وہیں اب محکمہ اینٹی کرپشن اور نیب نے بھی پی ٹی آئی سابق وزراء اور اہم اراکین کے خلاف مبینہ کرپشن کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔
9 مئی کے بعد محکمہ اینٹی کرپشن خیبر پختونخوا نے تحریک انصاف کے سابق وزیر اعلٰی، بعض وزراء اور اراکین کے خلاف مقدمات درج کرکے گرفتاریاں بھی شروع کر دی ہیں۔ اینٹی کرپشن کے مطابق سابق دورِ حکومت میں مختلف محکموں میں غیر قانونی بھرتیاں، ترقیاتی اسکمیوں میں کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے حوالے موصولہ شکایات کی ابتدائی طور پر تصدیق کے بعد باقاعدہ تحقیقات اور مقدمات کا اندراج شروع کردیا ہے۔
بی آر ٹی میں مبینہ کرپشن پر نیب کی پرویز خٹک کے خلاف تحقیقات
سابق وزیر اعلٰی پرویز خٹک نے 9 مئی کے واقعات کو جواز بنا کر صدر تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے عہدے سے استعفی تو دیا لیکن وہ ابھی تک پارٹی کے ممبر ہیں۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد نیب نے بھی بی آر ٹی منصوبے میں مبینہ کرپشن کیس کی فائل دوبارہ کھول دی ہے۔
اس ضمن میں نیب خیبرپختونخوا نے سابق وزیر اعلٰی پرویز خٹک کے خلاف باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے انہیں سوال نامہ ارسال کرکے طلب کیا تھا۔ نیب نوٹس کے مطابق پرویز خٹک کے دو ر میں بی آر ٹی منصوبے پر کام شروع ہوا مگر اس دوران ڈیزائن میں کئی مرتبہ تبدیلیوں سمیت 20 فیصد زیادہ ریٹ کی بھی منظوری دی گئی۔ ذرائع کے مطابق نیب حکام نے بی آر ٹی منصوبے کی فائلیں اور دیگر دستاویز بھی حاصل کر لی ہیں۔ تاہم پرویز خٹک نے ابھی تک نیب نوٹس کا جواب نہیں دیا ہے۔
سابق وزیرِ اعلٰی محمود خان بھی نیب ریڈار پر
وزیر اعلی کے منصب سے اترتے ہی تحریکِ انصاف کے رہنما محمود خان بھی نیب کے ریڈار پر آگئے ہیں۔ نیب نے محمود خان دور میں محکمہ فشریز کے پروجیکٹس میں بھرتیوں اور ٹراؤٹ مچھلی کے فارمز میں مبینہ کرپشن کی انکوئری شروع کی ہے۔ نیب نے محکمے سے سوات کے علاقے سے کی جانے والی بھرتیوں کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا ہے۔
سابق وزیر وزیر زراعت محب اللہ کے خلاف بھی اسی کیس میں انکوائری ہو رہی ہے۔ جس پر فش فارمنگ منصوبے میں بڑے پیمانے پر کرپشن کا الزام ہے جب کہ زیادہ تر فارمز محمود خان کے حلقے میں دیے گئے ہیں۔ جس پر محکمے نے بھی سوالات اٹھائے تھے۔
مزید پڑھیں
تیمور جھگڑا سمیت سابق وزرا اور اراکین کے خلاف کرپشن کی تحقیقات شروع
عید الاضحٰی کے فوراً بعد مبینہ کرپش اور اختیار کے ناجائز استعمال پر تحریک انصاف کے سابق وزیرا اور اراکین کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا، جس میں سابق صوبائی وزیر خزانہ و صحت تیمور سلیم جھگڑا، سابق وزیر تعلیم کامران بنگش، سابق ڈپٹی اسپیکر محمود جان، سابق وزیر جنگلات اشتیاق ارمڑ اور تین سابق اراکین صوبائی اسمبلی کو نامزد کیا گیا ہے۔
اینٹی کرپشن محکمہ کے مطابق ملزمان کے خلاف کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال، آمدن سے زائد اثاثے بنانے اور غیر قانونی بھرتیوں کی موصولہ شکایات کی ابتدائی تصدیق کے بعد باقاعدہ تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ اینٹی کرپشن مقدمے میں نامزد سابق وزیر ا ور اراکین 9 مئی کے پرتشدد واقعات میں پہلے ہی پولیس کو مطلوب اور فی الحال روپوش ہیں۔
جہاں ایک طرف صوبائی پولیس ان اہم سیاسی شخصیات کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار ہی ہے وہیں اب اینٹی کرپشن پولیس نے بھی ان کی تلاش شروع کر دی ہے۔ ابھی تک درج کیے گئے تازہ ترین کیس میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ تحریک انصاف نے ان تمام مقدمات کو سیاسی انتقام قرار دیا ہے۔
علی محمد خان کلاس فور بھرتی کیس میں گرفتار
محکمہ انسداد کرپشن نے فشریز مردان ریجن میں بھی غیر قانونی بھرتیوں پر تحقیقات شروع کر دی ہے۔ ایف آئی ار کے مطابق محکمے میں کلاس فور سمیت بڑے پیمانے پر بھرتیوں سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا ہے۔ ایف آئی آر میں تحریک انصاف کے سابق وفاقی وزیر علی محمد خان، سابق صوبائی وزیر عاطف، تحریک انصاف کے سابق اراکین اور سرکاری حکام سمیت 16افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
اس مقدمے میں علی محمد خان کو گرفتار کرکے تفتیش جاری ہے۔ اینٹی کرپشن حکام کے مطابق غیر قانونی طور پر بھرتی کیے جانیوالے افراد کی تنخواہ کی مد میں خزانے کو ساڑھے 23 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔علی محمد خان کے ترجمان نے غیر قانونی بھرتیوں میں ملوث ہونے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے تحقیقات اور گرفتاری کو سیاسی انتقام قرار دیا ہے۔
نیب، اینٹی کرپشن تحقیقات: غیر جابندار یا سیاسی انتقام؟
ماہرین اور سیاسی تجزیہ کار حالات کو کرپشن کیسز کی تحقیقات کے لیے موزوں نہیں سمجھتے۔ سینیئر صحافی علی اکبر کہتے ہیں کہ نیب کی تاریخ کو دیکھا جائے تو اس کی تشکیل ہی مخالفین کو دبانے اور وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے ہوئی تھی۔
‘جنرل مشرف نے نیب مخالفین کو دبانے کے لیے ہی قائم کیا تھا۔ اور اس کے ذریعے پی پی پی پر وار ہوا۔آج ایک بار پھر نیب کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے لوگوں کو تنگ کیا جارہا ہے۔ اینٹی کرپشن بھی نیب سے کچھ زیاہ مختلف نہیں۔‘
علی اکبر سمجھتے ہیں کہ بیشتر مقدمات میں کرپشن بھی ہوئی ہو گی لیکن اس حوالے سے مقدمات میں تاخیر معنی خیز ہے۔ ’اکثر کیسز پرانے ہیں نیب کو اچانک کیوں خیال آیا۔ بی آر ٹی دیگر کیسز پانچ سال سے بھی زیادہ پرانی ہین، اب تک مکمل خاموشی تھی۔ اور اب اچانک نیب، اینٹیکرپشن اور ایف آئی اے کے سرگرم ہونے سے کئی سولات نے جنم لیا ہے۔
علی اکبر کا خیال ہے کہ ان مقدمات کا موجودہ سیاسی صورتحال میں قائم ہونا اس خیال کو تقویت دیتا ہے کہ تحریک انصاف کو انتقام کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور اس کے اراکین کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوشش بھی۔ ’جو لوگ پریس کانفرنس کر رہے ہیں انہیں کچھ نہیں کہا جا رہا۔ اور جو لوگ پارٹی کے ساتھ وفادار ہیں ان کے خلاف کارروائیاں اور مقدمات بن رہے ہیں۔