وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے امور نوجوانان شزہ فاطمہ خواجہ کو سیاست میں آنے کا شوق تو ہمیشہ سے ہی تھا اور پھر سیاست اور معیشت میں لمز سے گریجویشن کرنے کے بعد انگلینڈ سے بین الاقوامی تعلقات اور عالمی سیاست میں ماسٹر کیا۔
اپنی قابلیت اور خاندانی سیاسی وابستگی کی بنا پر مسلم لیگ (ن) میں جگہ بنائی
وی نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے امور نوجوانان شزہ فاطمہ خواجہ نے بتایا کہ ان کے نانا خواجہ صفدر کے زمانے سے ہی ان کا خاندان مسلم لیگ کا حصہ ہے اور اب تیسری نسل ن لیگ سے وابستہ ہے اور آج تک کبھی کسی نے پارٹی نہیں بدلی۔
شزا کہتی ہیں کہ جب مسلم لیگ (ن) کی ویمن ونگ کی صدر نے ان کا انٹرویو لیا تو انہوں نے شزا سے کہا کہ ہمیں پڑھی لکھی قابل اور پارٹی کے ساتھ وفادار خواتین چاہیئیں۔
یہ تاثر غلط ہے کہ ن لیگ میں پڑھے لکھے لوگ نہیں
ایک سوال کے جواب میں شزا فاطمہ نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) میں ہر قسم کے لوگ ہیں کیونکہ یہ ملک کی ایک بہت بڑی جمہوری پارٹی ہے۔ احسن اقبال، رانا بلیغ الرحمن، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف خود ٹاپ یونیورسٹیوں اور کالجز سے پڑھے ہیں، اس کے علاوہ مفتاح اسماعیل اور اسحٰق ڈار چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں، جبکہ شاہد خاقان عباسی اور مریم اورنگزیب سمیت بہت سے لوگ ہیں جو اچھے تعلیم یافتہ ہیں لہٰذا یہ تاثر غلط ہے کہ ن لیگ میں پڑھے لکھے لوگوں کی کمی ہے، ہماری کابینہ کا دوسری کسی بھی پارٹی کی کیبنٹ سے موازنہ کریں تو میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ ن لیگ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سب سے زیادہ ہیں۔
خواتین کے لیے مشکلات ہمارا معاشرتی مسئلہ ہے
شزا فاطمہ کا کہنا تھا کہ پاکستانی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی سب سے زیادہ ہے اور اس حوالے سے پاکستان کافی بہتر ہے، اب جہاں تک پارٹی میں اپنی جگہ بنانے کا تعلق ہے تو یقیناً خواتین کو خود کو منوانے کے لیے کم از کم 5 گناہ زیادہ کام کرنا ہی پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں پارٹی کے تمام سینیئر رہنماؤں نے بہت زیادہ سراہا اور آگے بڑھنے کی ہمت دی مگر پھر بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب شروعات کی تو 25 برس کی تھی اور پھر خاتون ہونا آسان نہیں ہوتا، اور کئی گناہ زیادہ کرنا پڑا مگر خوشی اس بات کی ہے کہ اس محنت کو سراہا گیا۔
مریم نواز کی سیاست میں آمد نے خواتین کے لیے کافی آسانیاں پیدا کیں
خواتین کی مشکلات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شزا نے بتایا کہ مریم نواز نے جب سے سیاست میں قدم رکھا تب سے پارٹی میں خواتین کے لیے کافی آسانیاں آئی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے بینظیر بھٹو کی وجہ سے پارٹی میں عورتوں کی جگہ بڑھی۔ جب ایک خاتون کو لیڈرشپ رول میں دیکھا جاتا ہے تو اس سے پارٹی کا کلچراور لوگوں کا رویہ بدلتا ہے، ان کے جلسوں میں لوگوں کی شمولیت نے باقی خواتین کے لیے راستے ہموار کردیے کیونکہ جب لیڈر کے گرد حواتین ہوتی ہیں تو پورے معاشرے کی سوچ بدلتی ہے۔
کیا پی ٹی آئی کا کامیاب جوان پروگرام مریم نواز کا آئیڈیا تھا؟
پرائم منسٹر یوتھ پروگرام 2013 میں شروع ہوا جسے میاں محمد نواز شریف نے خود براہِ راست دیکھا اور اس کا پی ایم آفس کے اندر ہی ڈیپارٹمنٹ بنایا گیا تاکہ وہ خود روز کی بنیاد پر اسے دیکھیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ برین چائلڈ مریم نواز کا تھا جس کی بنیاد پر لیپ ٹاپ، اسکالرشپ، انٹرن شپس، اسکلز ٹریننگز اور قرض حسنہ دیا گیا اور اس کا مقصد بچوں کو تعلیم یافتہ بنانا اور روزگار یا کاروبار کے مواقع بڑھانا تھا جس کے بعد سنہ 2018 میں تحریک انصاف کی حکومت نے نام بدل کر کامیاب جوان رکھ دیا، جس کے بعد کچھ پروگرامز کو چھوڑ دیا گیا اورکچھ کو جاری رکھا جن میں لیپ ٹاپس اور انٹرن شپس جیسے اچھے پروگرامز بھی بند ہوئے مگر سنہ 2022 میں پی ڈی ایم کی حکومت کے آتے ہی شہباز شریف کی جانب سب سے پہلی ہدایت لیپ ٹاپ اسکیم اور اسپورٹس ڈیپارٹمنٹ کو بحال کرنا تھا۔
یوتھ پروگرام کے 4 حصے ہیں
انہوں نے یوتھ پروگرام کے حوالے سے بتایا کہ اس کے 4 حصے ہیں جن میں سب سے پہلا نان فارمل ایجوکیشن ہے جس میں 1 لاکھ بچوں کو بالکل مفت مختلف اسکلز فراہم کی جاتی ہیں۔
دوسرے حصے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ لیپ ٹاپ اسکیم کا پروگرام ہے جس میں یونیورسٹیوں کے 1 لاکھ طلبا کو میرٹ پر لیپ ٹاپ دیے جاتے ہیں۔
تیسرا حصہ روزگار کا ہے جس میں یوتھ بزنس لون سب سے بڑا پروگرام ہے اور اس پروگرام کے تحت 15 ارب روپے زراعت کو دیے گئے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار زراعت میں پروڈیوس کے لیے قرضے دیے گئے۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 5 سے 75 لاکھ روپے تک کا قرضہ دیا جاتا ہے اور 5 لاکھ روپے تک کا قرضہ بغیر کسی سود کے ہوتا ہے۔
15 لاکھ کا قرض 5 فیصد سود کے ساتھ ہے اور اس قرضے میں کسی قسم کی کوئی چیز گروی نہیں رکھنی پڑتی اور 75 لاکھ تک کا قرضہ 7 فیصد انٹریسٹ پر دیا جاتا ہے۔
ایک سوال پر شزا نے بتایا کہ ہم نے بینکوں کو یہی ہدایت کی تھی کہ 5 لاکھ کا قرضہ زیادہ سے زیادہ دیا جائے تاکہ مستحق افراد زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکیں۔ وہ پیسہ ان لوگوں کا ذریعہ معاش بنے جن کے پاس اور کوئی سہارا نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہماری ویب سائٹ پر یہ قرض حاصل کرنے کی ایپلیکیشن موجود ہے جسے آن لائن بھرنے کے بعد وہ سیدھی بینک کے پاس جائے گی اور بینک ہی وہ تمام معاملات کو دیکھتا ہے۔
یوتھ امپلائمنٹ پالیسی بھی جلد پیش کی جائے گی جس سے ان تمام نوجوانوں کے مسائل حل ہوجائیں گے جنہیں نوکریاں نہیں مل رہیں۔
آخری پروگرام ماحول ہے کیونکہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کا سامنا ہے اور ضروری ہے کہ بچوں کو زیادہ سے زیادہ ان سرگرمیوں میں شامل کریں تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ کیا ہے۔ جن نوجوانوں کے پاس اچھے آئیڈیاز ہیں ان میں سے 100 افراد کو 20 لاکھ تک کی گرانٹ دی جارہی ہے۔
پاکستان میں خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ ایک بڑا چیلینج ہے
خواتین کو ٹرانسپورٹ سے متعلق درپیش مسائل کے حوالے سے شزا نے بتایا کہ خواتین کو محفوظ ٹرانسپورٹ چاہیے ہوتی ہے مگر وہ بہت مہنگی پڑتی ہے جبکہ مرد حضرات موٹر بائیک استعمال کرتے ہیں جو سستی سواری ہے اس لیے خواتین کے لیے بھی ایسا کچھ ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ویمن آن ویلز کا مقصد یہی تھا کہ مسلم ممالک سمیت دنیا بھر میں خواتین موٹر بائیک چلا رہی ہیں اور اس کلچر کو پیدا کرنے کے لیے اس پروگرام کو شروع کیا گیا جس میں خواتین کو بائک چلانا سکھایا گیا اور کچھ کو بائیکس مفت بھی دی گئیں۔
ڈائریکٹر لیول کے کورس کے لیے 3 لاکھ روپے دیے جائیں گے
شزا نے بتایا کہ ان تمام پروگرامز کے ساتھ ایک اور ویمن لیڈ پروگرام شروع ہونے جا رہا ہے جس کے لیے وزیراعظم کی جانب سے 5 ارب روپے مختص کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں یہ قانون ہے کہ ڈائریکٹر لیول پر پہنچنے کے لیے 3 لاکھ کا ایک کورس کرنا پڑتا ہے اور اب حکومت سال میں 150 سے 200 خواتین کو اس کورس کے لیے پیسے دے گی۔