کرم میں گزشتہ 6 روز سے مورچہ زن قبائل حکومتی جرگے سے مذاکرات کے بعد فائر بندی پر متفق ہو گئے، متاثرہ اور متنازعہ علاقوں میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے کنٹرول سنبھالنا شروع کر دیا۔
کرم پولیس نے فائر بندی کی تصدیق کی ہے۔ضلع اپر کرم کے پولیس افسر محمد عمران نے وی نیوز کو بتایا کہ کوہاٹ سے آنے والے 30 رکنی جرگے نے لڑائی روکنے میں اہم کردار ادا کیا، جس میں تمام مکتب فکر کے افراد شامل تھے۔
محمد عمران نے بتایا ’جرگے نے دونوں قبائل سے مذاکرات کر کے انھیں فائر بندی پر قائل کیا ہے تاکہ شاملات کی زمین کا مسئلہ مذاکرات سے حل ہو۔‘
’آج صبح فائر بندی پر اتفاق ہو گیا جس کے بعد علاقے میں سکیورٹی فورسز کی تعیناتی شروع ہو گئی ہے، متاثرہ علاقوں کا کنٹرول اب پولیس سنبھال رہی ہے۔‘
لڑائی سے 10 قبائلی جان سے گئے، پولیس
مقامی افراد اور صحافیوں کے مطابق 6 روز سے جاری لڑائی میں دونوں قبائل کا بھاری نقصان ہوا۔ ڈی پی او محمد عمران نے وی نیوز کو بتایا کہ لڑائی میں 10 افراد جاں بحق جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ فائرنگ سے دونوں قبائل کے لوگ جاں بحق ہوئے ہیں۔ محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا نے 37 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ مقامی افراد کے مطابق لڑائی کے دوران بھاری اسلحہ استعمال کیا گیا۔ جس سے دیگر علاقوں میں بھی ماٹر گولے گرے۔
سرکاری اسکول نذر آتش
کئی روز سے جاری کشیدگی کے دوران پرائمری سکول نذر آتش کردیا گیا۔ محکمہ تعلیم نے سکول نذر آتش ہونے کی تصدیق کی ہے۔ اے ایس ڈی او کرم عابد حسین نے وی نیوز کو بتایا کہ آگ لگانے سے گورنمنٹ پرائمری اسکول دلاسہ کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے اور اسکول کو ہونے والے نقصان کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
پس منظر
محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کے مطابق کرم میں دو قبائل کے درمیان لڑائی شاملات کی زمین پر تعمیرات پر 7 جولائی کو شروع ہوئی۔ بوشیرہ ڈانڈار شاملات پر 2 مقامی قبائل کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جو رفتہ رفتہ شدت اختیار کر گیا، فائرنگ کے تبادے میں 7 افراد جاں بحق ہو ئے جس کے بعد ضلعی انتظامیہ نے علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دی۔
کرم میں شاملات کی زمین پر تنازع اور مسلح لڑائی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ علاقے کا پرانا جھگڑا ہے جو عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی رپورٹ کے مطابق کرم میں شاملات کی زمینوں کے 8 تنازعات ہیں جو قیام پاکستان سے بھی پہلے کے ہیں اور اب تک چلے آ رہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل شاملاتی زمین کے تنازع پر 2 قبائل نے ایک دوسرے کو ٹارگٹ کیا۔ پہلے گاڑی پر فائرنگ ہوئی جس کے جواب میں سرکاری اسکول میں امتحانی ڈیوٹی پر مامور مخالف قبیلے کے اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا جس میں اساتذہ سمیت 6 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔