عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے 3 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی منظوری دے دی۔
آئی ایم ایف کے مطابق ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط فوری پاکستان کو جاری کر دی جائے گی۔ پاکستان کے لیے اسٹینڈ بائی قرض پروگرام کی منظوری آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں دی گئی۔
عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستان کو طے شدہ پالیسیوں پر سختی سے کاربند رہنا ہو گا۔ پاکستان میں معاشی اصلاحاتی پروگرام معیشت کو فوری سہارا دینے کے لیے ہے۔
Imf by Ghulam Mustafa hashmi on Scribd
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے لیے 1.8 ارب ڈالر نومبر اور آئندہ برس فروری میں جائزوں کے بعد شیڈول کیے جائیں گے۔ قرض پروگرام سے پاکستان کو عدم توازن کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کے لیے یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب مشکل بیرونی ماحول، تباہ کن سیلاب اور پالیسیوں میں نقائص کی وجہ سے پاکستان کا مالیاتی اور بیرونی خسارہ اور مہنگائی بڑھی ہے اور مالی سال 23-2022 میں مالیاتی ذخائر کم ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں
دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ ارب امارات نے ہمارے ساتھ جو وعدے کیے تھے وہ پورے کر دیے، اب چیزیں درست سمت میں جا رہی ہیں۔ اب کوئی وجہ نہیں کہ نگران حکومت آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل نہ کر سکے۔
قرض پروگرام کی منظوری معیشت کی بہتری میں اہم پیشرفت ہے: وزیراعظم
دوسری جانب وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے قرض پروگرام کی منظوری معیشت کی بہتری کے لیے حکومت کی کوششوں میں ایک اہم پیشرفت ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنی ایک ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزارت خزانہ کی ٹیم کی محنت کو سراہتا ہے۔ وزیراعظم نے قرض پروگرام کی منظوری کے لیے ایم ڈی آئی ایم ایف کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔
The approval of Stand-by Agreement of $3 billion by the IMF's Executive Board a little while ago is a major step forward in the government's efforts to stabilise the economy and achieve macroeconomic stability. It bolsters Pakistan's economic position to overcome immediate- to…
— Shehbaz Sharif (@CMShehbaz) July 12, 2023
یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے 24 جون کو آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹلینا جورجیوا سے لندن روانگی سے قبل پیرس میں ملاقات کی تھی۔
اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ معیشت کو دوبارہ گروتھ کے راستے پر لانا آئی ایم ایف اہداف کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گزشتہ 4 سال کی معاشی بدحالی کی بحالی کے لیے ناگزیر اقدامات کرنے ہوں گے اور معاشی بحالی سے آئی ایم ایف اہداف کو بہتر طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ کی طرح عالمی برداری کے ساتھ اپنے عزم اور وعدوں کی تکمیل پر پورا اترتا رہے گا۔ اس موقع پر آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر نے وزیر اعظم شہباز شریف کے پاکستان کے لیے عزم کی تعریف کی تھی۔
واضح رہے کہ حکومت کی طویل کاوشوں اور مصلحتاً کیے گئے چند سخت معاشی فیصلوں کے باعث پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مابین اسٹاف لیول معاہدہ بالآخر 30 جون کو طے پاگیا تھا۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جدوجہد اور متعلقہ اداروں و افراد سے مسلسل ملاقاتوں کے نتیجے میں کل 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی انتظامات کے بعد اسٹاف کی سطح کا معاہدہ ہوا تھا جس کی آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے 12 جولائی کو اپنے اجلاس میں حتمی منظوری دے دی۔
مذکورہ منظوری کے بعد ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے مشکلات کے شکار پاکستان کو کچھ مہلت مل جائے گی۔
9 مہینوں پر محیط 3 ارب ڈالر کی فنڈنگ پاکستان کے لیے توقع سے زیادہ ہے کیوں کہ پاکسستان سنہ 2019 میں طے پانے والے 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج سے بقیہ ڈھائی ارب ڈالر کے اجرا کا انتظار کر رہا تھا جس کی میعاد جمعہ 30 جون کو ختم ہوگئی تھی تاہم اس کے بعد اسٹاف لیول معاہدہ ہوا تھا جو ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں ایک معجزے کی حیثیت رکھتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں متحدہ ارب امارات نے ایک ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرا دیے: اسحاق ڈار
گو آئی ایم ایف سے اس معاملے کو آگے بڑھانے کے دوران کڑی تنقید کے سامنے کے باوجود حکومت کی مسلسل جدوجہد اور ضرورت کے تحت کیے گئے سخت مگر سودمند فیصلوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اسٹاف لیول معاہدے کے وقت آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ 9 ماہ کا اسٹینڈ بائی معاہدہ طے پاگیا ہے جس سے پاکستان کو بیرونی ممالک اور مالیاتی اداروں سے فنانسنگ دستیاب ہوسکےگی۔ عالمی مالیاتی ادارے نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ موجودہ معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے پالیسیوں پر سختی سے عمل درآمد ضروری ہے جب کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی جائیں۔
علاوہ ازیں معاہدے کی غرض سے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی بھی کاوشیں بدستور جاری تھیں اور ان کی جانب سے 9 جون کو آئندہ مالی سال کے لیے پیش کردہ بجٹ پر نظر ثانی کر کے اس میں نمایاں تبدیلیاں کردی گئی تھیں۔ ان تبدیلیوں میں 215 ارب روپے کے اضافی ٹیکس اقدامات، اخراجات میں 85 ارب روپے کی کٹوتی، غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد پر ایمنسٹی واپس لینا، درآمدی پابندیوں کا خاتمہ، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مختص رقم میں 16 ارب روپے کا اضافہ اور پیٹرولیم لیوی کو 50 روپے سے بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر کرنے کے اختیارات شامل تھا۔