سیلاب متاثرین کی بحالی کے اقدامات

جمعہ 14 جولائی 2023
author image

رب نواز بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سیلاب آتے رہتے ہیں، مگر ایسا سیلاب زندگی میں نہیں دیکھا اور سنا، یہ الفاظ ہیں تعلقہ ٹھری میراہ، ضلع خیرپور میرس سے تعلق رکھنے والے جان محمد شر کے، جس کا گھر، مال مویشی اور سال بھر کی گندم سیلابی ریلے میں بہہ گئی۔

گوٹھ دائم خان میں ستر سے زائد گھر آباد تھے، یہاں اکثر مکانات کچے تھے جو اب مٹی کے ڈھیر بن چکے ہیں۔ گاؤں کے رہائشی ان مکانات کے ملبہ پر کئی دن تک بے یارو مددگار مشکل حالات کا سامنے کرنے پر مجبور رہے، کیونکہ مسلسل بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب نے ہر طرف تباہی مچائی ہوئی تھی۔ اس دوران دیگر گاؤں اور شہر کی رابطہ سڑکیں بھی زیر آب آچکی تھیں جس کی وجہ سے لوگوں کی مدد میں دشواری کا سامنا تھا۔

ان غریب اور سادہ لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی یہ پانی بہا لے گیا تھا اور جو پانی سے بچ گیا تھا وہ مکانوں کے ملبے تلے دب گیا تھا۔ اس گوٹھ کے ہر فرد کی کہانی جان محمد کی کہانی جیسی تھی۔

گاؤں کے دیگر افراد جو سیلاب کے بعد مختلف علاقوں میں زندگی بچانے کیلئے نکل گئے تھے، بارشیں رکنے کے بعد گوٹھ واپس آئے تاکہ مکان کے ملبے سے ملنے والے برتن اور دیگر سامان نکال کر زندگی کا سفر پھر سے شروع کرسکیں۔لیکن افسوس وہاں مایوسی کے علاوہ ان کے لئے کچھ بھی نہیں بچا تھا۔

اسی گوٹھ کے ایک رہائشی محمد عثمان نے بتایا کہ ان کا 2 کمروں کا جو گھر گرا تھا اسے بنانے کے لیے2 سے ڈھائی لاکھ روپے درکار ہیں۔ تاہم اس وقت تو دو وقت کی روٹی کے لالے ہیں مکان کی مرمت تو دور کی بات ہے۔ یہ الفاظ تھے اس بے بس انسان کے جو فی الحال گھر کی مرمت کے بجائے اسے جھونپڑی کی شکل دینے میں ہی خوش تھا۔

یہ کہانی صرف ایک گاؤں کی تھی، لیکن سندھ میں گزشتہ برس آنے والی موسمیاتی تباہی نے پورے صوبے کی ستر فیصد آبادی کو متاثر کیا تھا جس کے نتیجے میں کئی دیہات صفحہ ہستی سے غائب ہوگئے تھے۔ سینکڑوں افراد جاں بحق ہوئے اور ہزاروں جانور مرے، نہ صرف یہ بلکہ سال بھر کیلئے جمع کی گئی گندم سیلابی پانی میں بہہ گئی۔

اس حوالے سے اقوام متحدہ نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ موسمی شدت کے باعث اس غیرمعمولی سیلاب میں 17 سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں اور 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ حقیقت میں اپنے عروج کے دنوں میں اس سیلاب نے ملک کے ایک تہائی رقبے کو پانی میں ڈبو دیا تھا جس سے  کئی وسیع و عریض علاقے  تباہ و بربادہو کر رہ گئے۔

بلاشبہ سیلاب کے فوری اثرات تباہ کن تھے لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بہت سے بحران بعد میں سامنے آئے اور جو ابھی تک جاری ہیں۔ ان میں بڑھتی ہوئی غربت، طویل مدتی غذائی عدم تحفظ، ملیریا اور ٹائی فائیڈ جیسی بیماریوں کا پھیلاؤ اور لاکھوں بچوں کی تعلیم میں آنے والی رکاوٹوں جیسے مسائل نمایاں ہیں۔

میڈیا اور فلاحی اداروں نے چند دن تک تو سیلاب اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی خوب داد رسی کی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ فلاحی ادارے بھی اس آفت کو بھول گئے۔ان مشکل حالات میں سندھ حکومت لائق تعریف ہے جس نے جیسے ابتدا ہی میں اپنی عوام کو تنہا نہیں چھوڑا جو  گزرتے وقت کے ساتھ بھی برقرار رہا۔

حقیقت میں صوبائی حکومت سیلاب سے آئی تباہی کے بعد سے ہی عوامی مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔ اس حوالے سے ورلڈ بینک اور دیگر اداروں کے ساتھ مل کر سندھ حکومت نےصوبہ بھر میں سیلاب سے متاثر افراد کو پکے مکانات بنانے کیلئے سندھ پیپلز ہاؤسنگ سیل کا قیام کیا، جس کا مقصد صوبے کے 21 لاکھ خاندانوں کو گھر بنا کر دینا ہے۔

گو اس مقصد کیلئےخطیر رقم درکار تھی، 21 لاکھ گھروں کی تعمیر کیلئے ابتدائی تخمینہ 2 ارب ڈالر سے زائد تھا۔ اس مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے سندھ حکومت نے ڈونرز کانفرنس کا انعقاد کیا تاکہ عالمی اداروں کو متحرک کیا جا سکے ، جس میں حکومت سندھ تقریباً 7 سو 27 ملین ڈالرز اکٹھے کرنے میں کامیاب ہوئی۔

اس ضمن میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نےرواں برس 8 فروری کو سیلاب سے متاثر افراد کو گھر بنانے کیلئے پہلی قسط کے اجراء کا افتتاح کیا۔ اس پروگرام کے تحت سیلاب سے متاثرہ 21 لاکھ خاندانوں کو کل 3 لاکھ روپے کی رقم ان کے بینک اکاؤنٹس میں بھیجی جائے گی۔ اب تک 11 لاکھ خاندانوں کی ابتدائی تصدیق کا عمل مکمل ہو چکا ہے، جن میں تقریباً سوا 4 لاکھ خواتین گھروں کی سربراہ ہیں جنہیں یہ رقم منتقل کی جائے گی۔ یاد رہے سروے اور تصدیقی عمل کے بعد سندھ پیپلزہاؤسنگ سیل کی جانب سے 50 ہزار سے زائد خاندانوں کو پہلی قسط 75 ہزار روپے ، دوسری قسط 1 لاکھ، تیسری قسط بھی 1 لاکھ اور آخری قسط 25 ہزار روپے سیلاب متاثرین کو تھرڈ پارٹی آڈٹ کے بعد جاری کی جائے گی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

1971 کی پاک بھارت جنگ: بہاریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم تاریخ کا سیاہ باب

آزادی رائے کو بھونکنے دو

بنگلہ دیش کا کولمبو سیکیورٹی کانکلیو میں علاقائی سلامتی کے عزم کا اعادہ

فلپائن میں سابق میئر ’ایلس گو‘ کو انسانی اسمگلنگ پر عمرقید

آج ورلڈ ہیلو ڈے، لوگ یہ دن کیوں منانا شروع ہوگئے؟

ویڈیو

شیخ حسینہ واجد کی سزا پر بنگلہ دیشی عوام کیا کہتے ہیں؟

راولپنڈی میں گرین انیشی ایٹیو کے تحت الیکٹرو بس سروس کا باضابطہ آغاز

پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے مستقبل کو کتنا خطرہ ہے؟

کالم / تجزیہ

آزادی رائے کو بھونکنے دو

فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت

افغان، بھارت تجارت: طالبان ماضی سے کیوں نہیں سیکھ پا رہے؟