اسرائیلی حکومت کی مجوزہ عدالتی اصلاحات کے خلاف ہزاروں شہریوں نے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب سمیت دیگر کئی شہروں میں احتجاج انتہائی منظم احتجاج کرتے ہوئے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ حکومت کی ہٹ دھرمی پر نظامِ زندگی مفلوج کیا جاسکتا ہے۔
گزشتہ روز نکالی گئی ریلیاں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت کے عدالتی اصلاحات کے منصوبے کے خلاف 7 ماہ سے جاری مظاہروں کی ایک کڑی تھی، جس کا آغاز اس وقت ہوا جب حکومت کی جانب سے ایک کلیدی بل کو ابتدائی منظوری دی گئی جو اس وقت نظر ثانی کے مرحلے میں ہے۔
مجوزہ اصلاحات کے اس بل میں ایک شق میں بیان کردہ ’معقولیت‘کو کم کیا گیا ہے، جس کے ذریعے عدلیہ حکومتی فیصلوں کو ختم کر سکتی ہے۔ دوسری جانب اس بل کے ذریعے حکومت کا ججوں کی تقرری میں بھی عمل دخل بڑھ جائے گا۔ بل کو قانون بننے سے پہلے مزید دو سطح پر رائے شماری کے مرحلے سے گزرنا ہے، جو رواں ماہ کے آخر تک متوقع ہے۔
شدید مشکل حالات میں مدد کے لیے لکھے جانیوالے 3 حروف یعنی SOS پر مشتمل ایک بہٹ بڑے بینر کو تھامے ہوئے، تل ابیب میں مظاہرین نے پینٹ پاؤڈر ہوا میں پھینکا جس کے باعث فضا میں گلابی اور نارنجی لکیریں پھیل گئیں۔ ایسا لگتا تھا کہ مظاہرین خدا سے مدد کے طلبگار ہیں۔
Tel Aviv now! Pro-democracy protest in Israel. pic.twitter.com/DPmPvYxTqA
— Ashok (@ashoswai) July 15, 2023
مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ ملکی بقا کی جنگ ہے، ہم اسرائیل کو جمہوری رکھنا چاہتے ہیں اور یہاں آمریت کے قوانین منظور نہیں ہونے دیے جائیں گے۔ مظاہرین کے مطابق اس نوعیت کے متنازعہ قوانین کی منظوری سے اسرائیل کی مالی اور عالمی حیثیت کو نقصان پہنچے گا۔
ہفتے کے روز تل ابیب میں مظاہرین کے ساتھ ملک بھر کے دیگر افراد بھی شامل ہوئے۔ مظاہرین نے یروشلم میں نیتن یاہو کے گھر کے باہر مشعلیں روشن کیں اور ساحلی شہروں ہرزلیہ اور نیتنیہ میں مظاہرہ کیا۔ منتظمین کا موقف تھا کہ اگر حکومت نے اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھی تو وہ منگل نظام زندگی کو متاثر کرنیوالے دن کے طور پر منائیں گے۔
مزید پڑھیں
وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت کا عدالتی اصلاحات کو آگے بڑھانے کا فیصلہ جسے اسرائیلی رہنما نے مارچ میں احتجاج اور بین الاقوامی تنقید کے دوران معطل کر دیا تھا، گزشتہ ماہ اس معاملے پر فریقین کے درمیان ہونے والی بات چیت کے خاتمے کے بعد سامنے آیا تھا۔
تقریباً 7 ماہ کے احتجاج کے بعد بھی تحریک کے تھمنے کے بہت کم آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ اسرائیل کی قومی مزدور یونین اور اس کی میڈیکل ایسوسی ایشن عدالتی اصلاحات کے اس بل کی مخالفت کرنے والے گروپوں کی ایک لمبی فہرست میں شامل ہو گئی ہے، جب کہ فوجی رضا کار، فائٹر پائلٹ اور کاروباری رہنماؤں نے بھی حکومت سے اپنے اس منصوبے کو روکنے پر زور دیا ہے۔
ملک کی قومی مزدور یونین، ہسٹادرٹ کے سربراہ آرنون بار ڈیوڈ نے بھی ایک عام ہڑتال کی دھمکی دی ہے جو ملک کی معیشت کو مفلوج کر سکتی ہے، انہوں نے نیتن یاہو سے ’افراتفری کو روکنے‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر صورتحال انتہا کو پہنچتی ہے تو وہ بھی مداخلت کریں گے۔