ایمازون پر کاروبار کیسے کیا جا سکتا ہے؟

منگل 18 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایمازون ایک ایسی امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ہے جسے دنیا کی سب سے زیادہ قابل قدر کمپنیوں میں سے ایک جانا جاتا ہے۔ اس کی بنیاد سنہ 1994 میں رکھی گئی تھی اور اب یہ دنیا کی سب سے بڑی اور اہم ترین ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سے ایک ہے جو اربوں ڈالر کا کاروبار کرتی ہے جہاں دنیا بھر سے ہر قسم کے سامان کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ دنیا میں ای کامرس کی سب سے بڑی ویب سائٹ ایمازون نے سنہ 2021 میں پاکستان کو اپنی سیلرز لسٹ میں شامل کیا تھا جسے ایک خوش آئند خبر قرار دیا گیا تھا کیوں کہ ہر دوسرا شخص یہ گمان کر رہا تھا کہ پاکستان کے کاروباری افراد بھی بآسانی ایمازون پر پاکستانی اشیا فروخت کر سکیں گے۔

اسلام آباد کے رہائشی منصور علی خان پچھلے 3 برس سے ایمازون کے ذریعے مختلف پراڈکٹس بیچ رہے ہیں۔ انہوں نے ایمازون کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں رہتے ہوئے ایمازون سے پیسے کمانا آسان نہیں ہے اور اس کی ایک وجہ بیرونی ممالک چیزوں کو بھجوانا ہے اور دوسرا بھاری بھرکم ٹیکسز دینا ہے کیوں کہ ایک عام سیلر کے لیے یہ بلکل بھی فائدہ مند نہیں ہے، ہاں اگر کوئی کروڑوں کا کاروبار شروع کرے تو اس کے لیے یہ سب ممکن ہو سکتا ہے۔

منصورعلی اس وقت یورپ میں ایمازون کے ذریعے بال پین کا بزنس کرتے ہیں اور ان کی مارکیٹ بھی یورپ میں ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پین کی آن لائن خریداری بلک کی صورت میں وہیں سے کرتے ہیں اور وہیں فروخت بھی کرتے ہیں اور یوں وہ اچھا خاصا کما رہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں منصور علی کہتے ہیں کہ ان کے لیے پاکستانی مصنوعات بیچنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ وہ پاکستان سے باہر وہ چیز ڈیلیور کیسے کریں گے ’اگر مجھے بیرون ملک سے ایک آرڈر ملتا ہے جس کی قیمت چند ہزار یا چند سو روپے ہوگی، مگر میرے لیے نقصان ہوگا کیوں کہ اس ملک اور شخص تک اس پراڈکٹ کو پہنچانے میں بہت وقت لگ جائے گا اور اچھی خاصی رقم بھی صرف ہوگی۔ جو مجھ جیسے کسی عام سیلر کے لیے ناممکن سی بات ہے، اس لیے ہماری پراڈکٹ اسی ملک کی ہوتی ہے جس ملک میں ہمیں اس چیز کوسیل کرنا ہوتا ہے‘۔

محمد احتشام کا تعلق راولپنڈی سے ہے جو ایک کاروباری شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ایمازون کی سروسز بھی مہیا کرتے ہیں۔ انہوں نے ایمازون کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی مصنموعات ایمازون پر فروخت ہو سکتی ہیں اور یہ وہ لوگ ہی فروخت کر سکتے ہیں جن کی اپنی فیکٹریاں ہوں یا جو بڑے پیمانے پر کاروبار کرتے ہوں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کپڑے، اسپورٹس کٹ اور اسپورٹس کی اشیا خاصی مشہور ہیں مگر ایک عام شخص کے لیے تھوک میں یہ اشیا خرید کر ایمازون پر بیچنا فائدے کی جگہ نقصان کا سودا ہے کیوں کہ وہ کسی دوسرے ممالک میں ان اشیا کو ڈیلیور ہی نہیں کروا سکے گا۔

لیکن اگر کوئی اتنی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ اس ملک کے ایمازون ویئر ہاؤس میں اپنی پراڈکٹس رکھوا دے تو اس کے لیے آسان ہو جائے گا مگر اس کے لیے بھی اسے ٹیکس دینا ہوگا اور ویئر ہاؤس میں رکھوانے کے پیسے بھی۔

ویئر ہاؤس کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال پر محمد احتشام کا کہنا تھا کہ مختلف ممالک میں ایمازون کے ویئر ہاؤس ہوتے ہیں اور کوئی بھی شخص اگر اس ملک یا اس کے قریبی ملک میں اپنی مصنوعات کو سیل کرنا چاہتا ہو تو وہ اپنی چیزیں ویئر ہاؤس میں رکھوا سکتا ہے اور پھر اس پراڈکٹ کی ڈیلیوری اس کے ذمہ ہوگی۔ مگر اس سارے عمل کے لیے اچھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے۔

محمد ناصر فیصل آباد کے رہائشی ہیں۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ 15 برس سے ٹیکسٹائل کے شعبے سے منسلک ہیں اور انہوں نے گزشتہ برس ایک دوست کے کہنے پر ایمازون پر اسٹور بنایا اور وہاں کپڑوں کی تصاویر لگا دیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد انہیں انڈیا، امریکا اور سعودی عرب سے ان کپڑوں کی ڈیمانڈ آئی جس سے قبل معلوم نہیں تھا کہ ٹیکسز کے علاوہ بھی پیسے درکار ہوتے ہیں اور ان ممالک تک پاکستانی مصنوعات کو عام فرد کے لیے بھجوانا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہیں ان کپڑوں پر بہت ہی زیادہ اچھا رسپانس ملا جس سے انہیں یہ احساس ہوا کہ اگر پاکستان میں برآمدات کو آسان بنا دیا جائے تو پاکستان بہت ترقی کر سکتا ہے، خاص طو پر ٹیکسٹائل انڈسٹری بہت کامیاب ہو سکتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں محمد ناصر کہتے ہیں کہ اگر حکومت اس سارے سسٹم کو آسان کر دے تو وہ ایمازون کے ذریعے بہت کما سکتے ہیں اور عالمی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی مانگ میں اضافہ ہو جائے گا مگر فی الحال عام آدمی کو ایمازون سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔

ایمازون پر کاروبار کیسے کیا جا سکتا ہے؟

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد ای سیکلز کمپنی کی ٹرینر ماہ نور ثمر کہتی ہیں کہ ایمازون پر کام کرنے کے لیے آپ کو پہلے کمپنی کو لیمیٹڈ لائبلیٹی کمپنی( ایل ایل سی) امریکا سے رجسٹر کروانا ہوتا ہے جس کے تقریبا 1000 ڈالر ایجنٹ کو دینے ہوتے ہیں جس میں رجسٹریشن اور ایجنٹ کی فیس شامل ہوتی ہے اور سارے عمل کے بعد ایمازون پر  کمپنی کی پروفائل بنتی ہے جب کہ پرائیویٹ لیبل کو لانچ کرنے کے لیے کم از کم 15 سے 20 ہزار ڈالر کا ہونا ضروری ہے۔ پرائیویٹ لیبل کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اس سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو ایمازون پر پاکستانی اشیا کی کو فروخت کرنا چاہتے ہیں۔

ماہ نور کا کہنا تھا کہ لوگ ہول سیل کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ ہول سیل میں آپ جس ملک میں کاروبار کرنا چاہتے ہیں وہیں سے آپ پراڈکٹس اٹھاتے ہیں اور پھر اس کو ایمازون ویئر ہاؤس میں بھجوانا ہوتا ہے جس کے لیے آپ کو مزید 5 سے 8 ہزار ڈالرز درکار ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پرائیویٹ لیبل پر کاروبار کرنے والے لوگوں کی اتنی تعداد نہیں ہے جب کہ ایمازون پر پاکستان سے پول سیل کاروبار کرنے والے افراد کی اچھی خاصی تعداد ہے اور اس کی یہی وجہ ہے کہ پاکستانی مصنوعات کو دوسرے ممالک میں پہنچانے کے لیے ایک طویل عمل سے گزرنا پڑتا ہے جس کے لیے اچھا خاصا وقت ہی نہیں بلکہ پیسے بھی درکار ہوتے ہیں اور ٹیکسز الگ دینے پڑتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp