سابق وزیر اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے مجسٹریٹ کے سامنے دفعہ 164 کے بیان میں کہا ہے کہ سائفر کا ڈرامہ صرف حکومت کو بچانے کے لئے رچایا گیا۔ جبکہ عمران خان نے آج عدالت میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اعظم خان ایک سچے آدمی ہیں اور جب تک وہ خود ان کے منہ سے ایسی بات نہیں سنیں گے تب تک یقین نہیں کریں گے۔
اس معاملے پر خارجہ امور کے ماہر سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد سے جب بات کی گئی کہ کیا اس اعترافی بیان کی کوئی بین الاقوامی اہمیت ہو سکتی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی تناظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔
اعظم خان کے اعترافی بیان کی کوئی بین الاقوامی اہمیت نہیں، شمشاد احمد
شمشاد احمد خان نے کہا کہ اس معاملے کی کوئی بین الاقوامی اہمیت نہیں اور اس طرح کے بیانات دلوائے جاتے ہیں۔ امریکا کبھی کسی ملک کے خلاف سازش نہیں کرتا بلکہ صرف ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے۔ سازش تو اندورن ملک کی جاتی ہے اور عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے سازش بھی اندرون ملک ہی کی گئی جس کے بعد پارلیمان کی اکثریت اقلیت میں بدل گئی۔
’امریکا کا ہمارے سفیر اسد مجید کو بلا کر یہ کہنا کہ ہم آپ کے وزیراعظم کو پسند نہیں کرتے، صرف یہی ایک چیز تھی، باقی سب کچھ تو پھرپاکستان ہی میں ہوا‘۔
انہوں نے مریم نواز کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں اور دوسرے بہت سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ سائفر ہوتا کیا ہے۔ سائفر تو صرف سفرا کے اپنے ممالک سے رابطے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ امریکا تو صرف کسی حکومت کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی ظاہر کر دیتا ہے پھر باقی سب کچھ اسی ملک کے اندر ہوتا ہے، جس طرح مصر کے صدر حسنی مبارک کے ساتھ اور پھر ان کے بعد منتخب ہونے والے محمد مرسی کے ساتھ ہوا۔
سائفر کو داخلی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، سید محمد علی
اسی معاملے پر وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ماہر امور برائے قومی سلامتی سید محمد علی نے کہا کہ سائفر قومی سلامتی کے حوالے سے ایک انتہائی حساس معاملہ ہے جسے انتہائی غیر ذمے دارانہ اور غیر سنجیدہ انداز میں داخلی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ غیر محتاط انداز میں معاملے کو اٹھا کر نہ صرف پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی، قومی سلامتی کمیٹی اور سول ملٹری قیادت کے اعلیٰ ترین قومی فورم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے دفترِ خارجہ اور اس کے انتہائی حساس بیرون ملک سفارت خانوں اور پاکستان کے سفیروں کے باہمی رابطوں کے نظام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی جس نے ہمارے سفارت خانے اور سفرا کی ساکھ، پیشہ ورانہ قابلیت اور اہلیت پر غیر ضروری سوالات کو جنم دیا۔
عمران خان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہو سکتا ہے، شوکت صدیقی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ 164 کا بیان کسی جرم کی بنیاد پر ہی ریکارڈ کیا جاتا ہے اور پھر اس پر قانونی کارروائی کا آغاز ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے جس کی سزا موت ہے۔ وزیراعظم کے حلف میں یہ بات لکھی ہوتی ہے کہ میرے علم میں اگر کوئی قومی راز آئے گا تو اس کو افشاء نہیں کروں گا۔ اعظم خان کے بیان کے بعد حلف نامے کی خلاف ورزی پر سابق وزیراعظم کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ بھی درج ہو سکتا ہے۔
اعظم خان تحویل میں، اس لیے یہ بیان بے معنی ہے، بیرسٹر گوہر علی
مختلف مقدمات میں عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر علی خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 164 کے بیان میں سب سے بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ آیا بیان دینے والے نے اپنی آزادی کے تحت یہ بیان دیا ہے یا نہیں۔ اعظم خان تو تحویل میں تھے۔ اس لیے یہ بیان بے معنی ہے اور اس پر کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو سکتی۔
سائفر قومی سلامتی کا مسئلہ تھا لیکن اس پر سیاست کی گئی، لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب
جنرل (ر) امجد شعیب نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سائفر ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے تسلیم کیا اور پاکستان کے امریکا میں سفیر اسد مجید نے بھی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں اس کی تصدیق کی۔ ایک جونیئر لیول کا امریکی اہلکار کیسے پاکستان کے بارے میں اس طرح سے بدتمیزی سے گفتگو کر سکتا تھا۔ اس پر پارلیمنٹ کو بولنا چاہیے تھا۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت اس معاملے کو عمران خان نے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اس کا انہیں فائدہ بھی ملا اور اِس وقت اتحادی جماعتوں کی حکومت اس کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
کیا ایک سرکاری راز کو اس طرح سے افشا کرنا قومی سلامتی کے لیے خطرات کو جنم نہیں دیتا؟ اس سوال کے جواب میں جنرل امجد شعیب نے کہا کہ وزیراعظم بطور چیف ایگزیکٹو فیصلہ کر سکتا ہے کہ کس بات کو راز رکھنا ہے اور کس بات کو افشا کرنا ہے، اور وہ کابینہ سے اس کی منظوری بھی لے سکتا ہے۔
امجد شعیب نے کہا کہ اعظم خان کے بیان کی بنیاد پر جو کیس بھی بنانا چاہیں بنا سکتے ہیں، اگر گرفتار کرنا چاہیں تو بھی کر سکتے ہیں لیکن سائفر ایک حقیقت تھا، اس کی تصدیق نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے بھی کی، آئی ایس پی آر نے بھی اس کی تصدیق کی اور پھر امریکا کو احتجاجی مراسلہ دینا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ سائفر کے مندرجات حقیقت پر مبنی تھے۔ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا حالانکہ پارلیمنٹ کو اس معاملے کو اٹھانا چاہیے تھا۔