کپتان کی پارٹی اور اس کے مداحوں کی آج کل شامت آئی ہوئی ہے۔ اس کے پیچھے خود کتپان کی اپنی محنت عزم اور مسلسل جدوجہد۔ جدوجہد پر بھی اب 22 سال کی نوجوانی کی بجائے 27 سال کی جوانی آ چکی ہے۔ ہر وہ کام جس سے بزرگ منع کرتے ہیں کہ سیاست کرنی ہو تو یہ نہ کرنا۔ ہمارے اس نوجوان بزرگ نے وہ سب کیا.
عدم اعتماد سے حکومت جانے کے بعد آنے والی حکومت ڈری سہمی رہتی ہے سابق حکومت کی اپوزیشن سے۔ کپتان اپنے سارے ممبر لیکر پارلیمنٹ سے نکل گیا کہ تم سب کے ساتھ پھر میں باہر روڈ پر دیکھوں گا۔ اس کے بعد اپنے سپورٹر کو پاکستان کی گلی گلی پھرایا تھکایا اور کٹوایا۔ جس جس کو شوق تھا کہ وہ اپنی کمائی کپتان کی سیاسی یا سماجی سرگرمی پر لگائے۔ ان سب کا بھی شوق پورا کرا دیا۔
کبھی دھرنا کبھی جلسہ۔ پیسے لگانے والے سارے مارک بھی ہو گئے۔ ان سے پھر ایف آئی اے ، ایف بی آر، ہر قسم کے انسپیکٹر اور کلرک کا پوچھنا تو بنتا تھا کہ ادھر آ بتا ذرا۔ تیرے پاس بڑے پیسے۔ اب جب حکومت کی مدت پوری ہو رہی ہے۔ کپتان کے مداح اندر بیٹھے 9 مئی کو اپنا جنون یاد کرتے خارش کر رہے۔ کپتان انہیں بھول بھال چکا۔ حکومتی اتحاد اپنی مشکلات پر قابو پا کر اب الیکشن موڈ میں آتا دکھائی دے رہا ۔
پی ٹی ائی کے ٹوٹے ہو رہے، لوگ نکل نکل بھاگ رہے۔ جو نہیں بھاگ رہے وہ کہیں چھپے ہوئے ہیں۔ ٹوئٹر پر جھانک کر پھر غائب ہو جاتے ہیں۔ جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی کے بعد پرویز خٹک پی ٹی ائی پارلیمینٹیرن لانچ کر چکے۔ کپتان کی فخریہ پیش کش 4 وزرا اعلیٰ تھے۔ خیبر پختونخواہ کے دونوں وزرا اعلیٰ پارٹی چھوڑ کر تتر ہو چکے۔ پنجاب کا ایک وزیر اعلیٰ وسیم اکرم پلس تقریبا غائب ہے۔ دوسرا اندر بیٹھا مشرف کو 10 بار وردی میں منتخب کروانے والی آئٹم پر یا اپنے بیٹے مونس الٰہی کی سیاست پر غور کرتے وقت گزار رہا۔
کپتان کا آنے والے دنوں میں نااہل ہونے گرفتار ہونے کا پورا امکان ہے۔ نااہلی کے بعد وہ اپنے پارٹی امیدواروں کو ٹکٹ بھی نہیں دے سکے گا۔ نواازشریف کی نااہلی کے بعد ان کے دیے ٹکٹ بابے ڈیم نے منسوخ کر دیے تھے۔ نون لیگ کے سینیٹر پھر آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے تھے۔ کپتان کے پارٹی عہدیداروں کی دوڑ لگی ہوئی تو اس کا آزاد کیا بیچے گا؟ لیکن اس سے بھی پہلے بڑا سوال یہ ہے کہ کپتان ٹکٹ کا اختیار کسی اور کو دے گا؟ دے گا تو کسے اور کیوں؟ اب وہ اتنا اعتماد کس پر کرتا ہے؟
مراد سعید کپتان کا متبادل اور قائم مقام ہو سکتا ہے لیکن وہ تو خود غائب ہے۔ اچھا یہ مراد سعید والی بات کو آپ نے مذاق نہیں سمجھنا۔ کپتان کا جانشین اور قائم مقام یا متبادل ہر عہدے کے لیے کپتان کی نظر میں یہی بہترین امیدوار ہے۔ انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے قیام اور اس کے لیے کی جانے والی سرگرمیوں کی وجہ سے مراد سعید بہت مقبول بھی پی ٹی آئی یوتھ میں۔
بیٹ کا نشان پی ٹی آئی کے پاس رہے گا ۔ رہنا تو چاہیے لیکن اس پر عدالت میں کھینچا تانی ضرور ہو گی۔ پی ٹی آئی پارلیمینٹیرن نام رکھنے کا پھر کوئی مقصد نہیں رہتا اگر بیٹ پر دونوں سائڈ کچہری نہ چڑھیں۔ جب پی ٹی آئی اور کپتان پر اتنی سختی ہو رہی ہے۔ تو کپتان الیکشن ہی کیوں لڑے گا؟ بائیکاٹ بھی تو کر سکتا ہے ۔
کپتان نے اپنی 2 صوبائی حکومتیں خود ختم کی تھیں۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر حکومتیں البتہ کپتان کے حق میں ریڈ لائن کراس کرنے پر ختم ہوئیں۔ کسی اور پارٹی کا کوئی وزیر اعلیٰ اس طرح لائن کراس نہ کرتا اپنے لیڈر کے لیے جیسے جی بی کے وزیر اعلیٰ اور آزاد کشمیر کےوزیراعظم نے کی۔ پاکستان کی روایتی سیاسی جماعتیں محاذ آرائی بھی ایک طریقے سے ہی کرتی ہیں۔ دائرے کے اندر رہ کر ہی کھیلتی ہیں۔
کپتان اس وقت مقبولیت کھو چکا ہے۔ اس کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاست میں صرف ووٹر میں مقبولیت کافی نہیں ہوتی۔ آپ کو اداروں میں بھی اکثریت کی حمایت درکار ہوتی۔ تاجر تنظیموں کی اکثریت، وکلا کی اکثریت، عالمی مالیاتی اداروں میں اکثریت چلیں آپ گڈ ول کہہ لیں۔ دوست ملکوں کی اکثریت کی طرف پسندیدگی کے سگنل یعنی ادھر اکثریت۔ 9 مئی کے بعد کپتان کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ کم نہیں ہوئی۔ لیکن باقی سب جگہ جہاں مقبولیت چاہیے وہاں پسندیدگی چھوڑیں اکتاہت کے سگنل آتے ہیں۔ اک پی ٹی آئی عدلیہ ونگ کا آسرا ہے۔ وہ آسرا دلوانے والے خود خزاں کے ڈولتے پنکھ بنے ہوئے ہیں۔
اک اسلام آبادی بیٹھک گپ ہے اس کو گپ کے طور پر ہی سنیں۔ گپ یہ ہے کہ کپتان نوازشریف کی حمایت میں الیکشن کا بائیکاٹ کر دے گا۔ جن سب کی خواہش ہے کہ مخلوط حکومت آئے ۔ یہی سیٹ اپ چلے۔ وہ مسلم لیگ نون کو 2 تہائی اکثریت سے آتا دیکھیں گے۔ اس کے بعد صورتحال سمجھنے کے لیے وہ لطیفہ یاد کریں جس میں ایک جوان ہسپتال سے ڈسچارج ہوتے وقت ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ میں الاسٹک ڈھونڈوں گا۔ اس سے غلیل بناؤں گا اور پھر لوگوں کے گھروں گاڑیوں کے شیشے توڑوں گا۔
نوازشریف فیصلہ کن اکثریت کے ساتھ واپس آ گئے تو انہیں غلیل اور شیشے توڑنا یاد آ جانا ہے۔ بے خبر کے بقول کپتان سے کہا جا رہا کہ 2 تہائی اکثریت والے نوازشریف نے سال ڈیڑھ ہی نکالنا ہے۔ اس کے بعد سب کو اک بار پھر تم سے سچا پیار ہو جانا ہے۔ اور کپتان پھر ہر طرف تو ہی تو اور تیرے بعد ویسے بھی قیامت ہے۔
یہ آئیڈیا ہے تو گپ شپ اور مذاق کہ کپتان الیکشن کا بائیکاٹ کرے۔ لیکن سب ڈریں اس وقت سے جب کپتان سچ میں یہی کچھ کر گزرے۔