پشاور اور ضلع خیبر میں ہونے والے خودکش حملوں کی تحقیقات میں اہم پش رفت ہوئی ہے ۔ سی ٹی ڈی پولیس نے پشاور خودکش حملہ اور کے مبینہ سہولت کار گرفتار کرلیے جب کہ خیبر حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی چوری کی نکلی۔
پشاور کے حیات آباد میں ایف سی پر خودکش حملے کے تانے بانے پڑوسی ملک افغانستان سے مل گئے۔ کے پی کے ایک افسر نے وی نیوز کو بتایا کہ حملے میں اہم گرفتاریاں ہوئی ہیں اور گرفتار شدگان سے مزید تفتیش جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مبینہ خودکش حملہ اور افغانستان سے وزیرستان سے پاکستان میں داخل ہوئے اور حملے سے ایک روز پہلے پشاور پہنچے۔
پولیس افسر نے مزید بتایا کہ تحقیقات دوران پتہ چلا کہ مبینہ حملہ اور پشاور کے نواحی علاقے میں رات گزرا۔ اور سہولت کاروں کی مدد سے حملے کی جگہ پہنچے ۔
سہولت کار گرفتار
پولیس ذرائع نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے بعد پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے سہولت کاروں تک پہنچ گئے اور تین مبینہ سہولت کاروں کا حراست میں لیا ہے۔ ان تین سہولت کاروں نے حملہ اور کی مدد کی اور حملے کی جگہ پہنچایا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ مبینہ حملہ اور افغانستان سے وزیرستان اور پھر پشاور پہنچے اور نواحی علاقے میں رات رہے۔ انھوں نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد گھر کے مالک کو گرفتار کیا۔ بتایا کہ دو افراد نے حملہ اور کو نواحی علاقے سے حیات آباد پہنچنے میں مدد کی۔ بتایا کہ دونوں سہولت کار مسلسل حملہ اور کی نگرانی کی اور حملے کی جگہ تک پہنچایا۔ بتایا کہ ان دو مبینہ سہولت کاروں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جن سے مزید تفتیش جاری ہے۔
حملہ آور افغان شہری تھا، گاڑی ویڈیو کال کے ذریعے تیار ہوئی تھی
پولیس ذرائع بتایا کہ تحقیقات اور گرفتار سہولت کاروں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مبینہ خود کش حملہ اور افغان شہری تھا اور افغانستان سے وزیرستان سے داخل ہوا تھا۔ بتایا کہ خودکش حملہ اور افغانستان سے مکمل تیاری سے ائے تھے اور مقامی سہولت کاروں کی مدد سے حملے کی جگہ تک پہنچے۔
باخبر ذرائع نے مزید بتایا حملہ آور کے لیے گاڑی خصوصی طور پر تیار کی گئی تھی۔ اور ویڈیو کال کی مدد سے سے پاکستان میں ہی گاڑی تیار ہوئی تھی۔ گاڑی میں بیٹھنے کے لیے حملہ آور کے کہنے پر تبدیلی کرکے گاڑی کو تیار کیا گیا تھا۔
خیبر خودکش حملے میں استعمال گاڑی روالپنڈی سے چوری ہوئی تھی
ذرائع نے بتایا کہ ضلع خیبر میں پولیس پر حملے کی تحقیقات جاری ہیں اور جس گاڑی میں 2 خودکش حملہ آور آئے تھے۔ ذرائع کے مطابق وہ گاڑی بھی مل گئی ہے جو 9 دن پہلے روالپنڈی سے چوری ہوئی تھی اور جس کی ایف آئی آر بھی درج ہوئی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ چوری کی گاڑی کے پی میں فروخت ہوئی اور بعد میں دہشت گردی میں استعمال ہوئی۔ بتایا مزید تحقیقات جاری ہیں۔
48 گھنٹوں میں چار حملے
پشاور سمیت خیبر پختونخوا میں ایک بار پھر دہشت گرد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور 48 گھنٹوں میں دہشت گردی کے 4 واقعات رونما ہوئے جن میں میں 2 خودکش حملے بھی شامل ہیں۔ پولیس اور سیکیور ٹی فورسز پر ہونے والے ان حملوں میں 7 اہلکار شہید جب کہ 22 زخمی ہو ئے۔
تازہ ترین حملہ افغانستان سے متصل قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں ہوا تھا جہاں 2 خودکش حملہ آوروں نے سرکاری کمپاؤنڈ کو نشانہ بنایا جس میں 3 پولیس اہلکار شہید جب کہ 2 شہریوں سمیت 10 اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔
گزشتہ چند روز میں ہونے والی ان کارروائیوں کی ذمے داری جہاد اسلامی نامی تنظیم نے قبول کی ہے جو دفاعی تجزیہ کاروں اور صحافیوں کے لیے حیران کن ہے۔ ایک ایسے وقت جب افغانستان پر کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے حملوں کو روکنے کے لے دباؤ ہے ایسی کارروائی یا اس کا اعتراف سمجھ سے بالاتر ہے۔
دہشت گردی کے پے در پے واقعات کے بعد پاکستان نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں پر شدید موقف دیتے ہوئے طالبان سے اپنی سرزمین سے ٹی ٹی پی کے حملوں کو روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
خیبر پختونخوا میں حالیہ حملے اس وقت ہوئے جب کہ افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی آصف درانی کابل میں ہی موجود ہیں۔ آصف درانی افغان حکام سے ملاقاتوں میں اسلام اباد کا دوٹوک موقف کابل کے سامنے رکھا ہے جس میں افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں اور افغان سر زمین سے پاکستان میں کیے جانے والے حملوں کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔
نمائندہ خصوصی کابل میں
گزشتہ سال نومبر میں حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان امن معاہدہ ختم ہونے کے بعد ملک میں دہشت گرد دوبارہ سر گرم ہو گئے تھے جس کے بعد قبائلی اضلاع میں سکیورٹی فورسز اور پولیس پر حملے شروع ہو ئے۔ گزشتہ چند ماہ میں دہشتگردی کی کاروائیوں اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد اسلام آباد نے معاملہ کابل کے ساتھ اٹھایا ہے۔
افغان محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اصف درانی اور افغان وزیر خارجہ کے درمیان ملاقات میں سیکیورٹی کے مسئلے پر تفیصلی بات چیت ہوئی اور افغانستان کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔
کیا افغان طالبان ٹی ٹی پی پر دباؤ ڈال سکتے ہیں؟
پشاور کی سینیئر صحافی فرزانہ علی کہتی ہیں کہ خیبر پختونخوا میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں اور نئی عسکریت پسند تنظیم تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی) کی طرف سے کچھ حملوں کی ذمہ داری اور حالیہ باڑہ حملےکی ذمہ داری سابق جماعت الاحرار کے کمانڈر اور ٹی ٹی پی رہبر شوریٰ کے رکن عمرمکرم خراسانی کی طرف سے قبول کرنے کی خبر سے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ پالیسی پاکستان کی طرف سے افغان حکومت پر دہشت گردوں یا پاکستان کے مجرموں کو پناہ دینے کے حالیہ بیانات کے بعد اختیار کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ اسٹریٹیجی کا ہی نتیجہ ہے اور اب ٹی ٹی پی کھل کر اپنے نام کے ساتھ کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے تاہم اس سارے کھیل اور افغان طالبان کے انکار کے باوجود یہ بات واضح ہے کہ ان سب معاملات کے پیچھے ٹی ٹی پی ہی ہے جسے افغان طالبان کی حمایت حاصل ہے اور سرحد پار ان کے لیے محفوظ علاقے بھی موجود ہیں جہاں انہیں آزاد نقل و حرکت کے مواقع بھی حاصل ہیں۔
فرزانہ علی نے کہا کہ ’آپ جنوری 2022 میں مشرقی ننگر ہار میں مفتی خالد بلتی عرف محمد خراسانی کی ہلاکت سے ضلع برمل میں عمر خالد خراسانی، مفتی حسن اور حافظ دولت خان کے مارے جانے، چینی بس پر داسو ڈیم دھماکے کا ماسٹر مائنڈ ٹی ٹی پی کمانڈر طارق سواتی کی افغانستان میں ہلاکت سمیت درجن بھر اور کئی نام اور واقعات اٹھا کر دیکھ لیں اور پھر ٹی ٹی پی افغان نیشنل آرمی کے استعمال میں رہنے والے جدید امریکی آلات جیسے نائٹ ویژن سائٹس، ایم 16 کے ساتھ تھرمل سائٹس اور ایم 4 اے 1 اسالٹ رائفلز کا استعمال کرتی نظر آتی ہے اس تناظر میں گزشتہ 2 سے ڈھائی سالوں میں مسلسل پیش آنے والے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں سرحد پار سے ہونے والی در اندازی دراصل ملی بھگت کا شاخسانہ ہے‘۔
کیا ٹی ٹی پی مضبوط ہو گئی ہے؟
افغانستان سے پاکستان میں حملوں میں تیزی کے بعد خیال کیا جا رہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی مضبوط ہوئی ہے جس کی وجہ وہاں محفوظ پناہ گاہیں اور حمایت بھی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق افغان طالبان حکومت میں آنے کے بعد پاکستانی طالبان ٹی ٹی پی میں شامل ہو گئے جب کہ انہیں بیرونی قوتوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
پشاور کے سینیئر کرائم رپورٹر فیضان خان کا خیال ہے کہ کچھ عرصے میں ٹی ٹی پی کی پالیسی میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے عام شہریوں کو کھلے عام نشانہ بنایا جاتا تھا۔ عبادت گاہوں، پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر پے درپے حملے ہوتے تھے لیکن اب ویسا نہیں ہو رہا۔
انہوں نے کہا کہ لگ رہا ہے کہ ٹی ٹی پی اب لوگوں کی ہمداری حاصل کرنا چاہتی ہے اس لیے اب ان کا ہدف پولیس اور سیکیورٹی ادارے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے گرد گھیرا تنگ ہے اس لیے وہ اب مکمل طور پر افغانستان سے کارروائیاں کر رہے ہیں۔