گذشتہ 20 سال کے دوران پاکستان میں خواتین پہ تیزاب گردی کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہوئے، مگر ریکارڈ میں ان کا اندراج محض 500 کے قریب ہے۔ یہاں حساب نسواں میں ریاضی کے اصول بھی بدل جاتے ہیں۔ ملک خدا داد ہمیشہ سے ہی ” گردیوں” کی لپیٹ میں رہا ہے۔ کبھی دہشت گردی تو کبھی غنڈا گردی یہاں معمول کی باتیں ہیں۔
پاکستان میں تیزاب گردی کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں پیش آتے ہیں۔ ان میں سے بھی متاثرین کی اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہوتی ہے۔ خواتین کے ساتھ زیادہ تر واقعات گھریلو تنازعات کے باعث پیش آتے ہیں۔ جن میں سسرالی رشتے دار ہی صف اول میں نظر آتے ہیں۔
دیگر وجوہات میں شادی کی پیش کش مسترد کرنا، شوہر سے جھگڑا، جائیداد کے تنازعات وغیرہ شامل ہیں۔
حالیہ دنوں میں نو عمر لڑکوں میں بھی تیزاب گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے کیوں کہ وطن عزیز کے کچھ اضلاع میں لڑکوں سے “تعلقات” رکھنا قابل فخر سمجھا جاتا ہے. انکار یا بے وفائی کی صورت میں قتل کیے جانے تک کی نوبت آ جاتی ہے۔
اگرچہ قانون سازوں کا دعویٰ ہے کہ تیزاب کی خریداری کا ایک قانونی پروسیس ہوتا ہے مگر یہ دعویٰ باقی دعوؤں کی طرح بس کاغذات کی حد تک ہی محدود ہے۔ جب کہ مارکیٹ میں تیزاب با آسانی دستیاب ہے۔ تیزاب گردی کے کیسز میں سزا کا تناسب 40 فیصد سے بھی کم ہے اور واقعات میں اضافے کی شرح کو دیکھتے ہوئے قانون سازوں کو خواتین اور بچوں کو تحفظ دینے کے اقدامات کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کرنا ہو گی۔
تیزاب گردی کے کیسز میں ملوث اکثر ملزمان قانون موجود ہونے کے باوجود بھی بغیر کسی خاص دقت کے رہا ہو جاتے ہیں اور قانون کو منہ چڑا رہے ہوتے ہیں۔ حکومت اگر سنجیدہ اقدامات کرتی تو اب تک ان واقعات پر کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہوتا۔ مگر جہاں معاشرہ بے حس ہو چکا ہو وہاں قوانین بس کاغذات میں ہی دفن رہ جاتے ہیں۔