بہو یا کھانا؟

جمعرات 27 جولائی 2023
author image

مہوش بھٹی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جب آپ “کھانا” لفظ سنتے ہیں ، تو آپ کے دماغ میں پہلی چیز کیا آتی ہے ؟ گوشت ؟ مرغی ؟ پاستا ؟ پیزا ؟ برگر ؟ نہاری ؟ پائے ؟ کچھ نا کچھ ایسا ہی آتا ہوگا یقینا۔ اک عام انسان بلکہ ایک نارمل انسان کو یہی خیال آنا چاہیے۔ کچھ انسانوں کو شاید كھانا بنانے کا بھی خیال آتا ہو لیکن ہم کھانے کے زیادہ شوقین ہیں۔ لیکن کچھ انسان جو ہمارے معاشرے میں کافی ذیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں اور جنہیں سسرال والے کہا جاتا ہے ، جب وہ کھانے کے بارے میں سوچتے ہیں تو پہلا خیال کیا ہوتا ہے۔۔بہو!

جی ہاں ، نا برگر ان کا کچھ بگاڑ سکا نا پیزے ، اگر پہلی اور آخری چیز ان کے دماغ میں آئی تو وہ ہے بہو۔ بہو ایک بہت مزے دار چیز لگتی ہے مجھے۔ اِس کا نام سنتے ہی سب کے ہاتھ پاؤں کام کرنا بند کر جاتے ہیں۔ قدرتی طور پر سب صفائی اور کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ اور کھانا پکانا تو کیا ، کچن کے برتن بھی چھوڑ جانے کا کہہ جاتے ہیں کہ اب بہو آ ہی گئی ہے تو سب کچھ لائے گی اور کرے گی۔ اُف ! کیا طاقت ور لفظ ہے جو سب کو نکما کر دیتا ہے۔ میرے خیال میں اگر سسرال والوں کا نوکری کے لیے سی وی تیار کرنا ہو تو بہو کے آنے کے بعد کے سالوں کا تجربہ صفر ہو گا کیوں کہ نکما کیا بہو نے ، اِس بہو نے کیا ہے نکما۔

اچھا بات ہو رہی تھی کھانے کی۔ بہو ہماری آئے گی ، دسترخوان لائے گی والےبریگیڈ نے كھانا بنانے جیسا بہت ہی ضروری ہنر ایک زحمت بنا چھوڑا ہوا ہے۔ جب لڑکی چھوٹی سی ہوتی ہے تو تب سے ہی اس کو کہا جانے لگ جاتا ہے کہ بھائی کے لیے پانی لاؤ ، بھائی کے لیے روٹی بنا دو ، بھائی کے لیے کباب فرائی کر دو اور ساتھ ہی کہا جاتا ہے کہ “ابھی سے کرو گی تو اگلے گھر میں کر سکو گی”۔ کبھی بھی لڑکی کو یہ نہیں کہا گیا کہ اٹھ کے اپنے لئے كھانا پکا لو ، اگر آگے زندگی میں اپنے لیے کچھ بنانا پڑ گیا تو کیا بھوکی رہو گی ؟اور لڑکے پر تو کھانا بنانا ویسے ہی مکروہ سمجھا جاتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ لڑکے کے ہاتھ میں کبھی بھی ڈوئی آئے۔

مجھے آج تک افسوس ہے کہ میں نے كھانا بنانا اتنا دیر میں شروع کیا۔ کیوں کہ میری ضد ہی یہ تھی کہ یہ اگلا گھر کیا ہوتا ہے ؟ میرا سوال یہی ہوتا تھا کے آپ کو کس نے گارنٹی دی ہے کہ میں اگلے گھر جا رہی ہوں۔ ادھر تو میں اٹھ کر اپنے کمرے میں جانے کے لیے تیار نہیں ہوتی ، اگلے گھر کون جائے ؟ اسی ضد میں میں نے كھانا پکانے سے صاف انکار کر دیا۔ اور شاید چونکہ میں گولا کباب نہیں بنانا جانتی تھی تو میری ایک منگنی بھی ٹوٹ گئی کیوں کی اگر بہو گولا کباب نہیں بنائے گی تو لڑکے کا خاندان اور اس کی آگے کی نسل کیسے چلے گی
گولا کباب تو نا بن سکا لیکن میں زندگی میں ویسے کچھ نا کچھ بن ہی گئی۔ لیکن آج بھی میں محسوس کرتی ہوں کے كھانا بنانا ہر کسی کو آنا چاہیے۔ چاہے لڑکی ہو یا لڑکا۔ روٹی گول ہو نا ہو ، بنانی آنی چاہیے۔ چاول سہی بنے نا بنے لیکن بنانے آنے چاہیے۔ اور اپنی ذات کے لیے آنے چاہیے۔ اگر کہیں پردیس میں ہوں یا کسی وجہ سے آپ اکیلے ہوں اور جب ندی ناالے بہہ رہے ہوں اور كھانا ڈلیور کرنے والے نا آ سکیں تو آپ بھوکے مرنے سے بچ سکیں گے کیوں کے آپ کو كھانا بنانا آتا ہو گا !

آپ کہہ رہیں ہونگے کے سسرال کے ہی پیچھے کیوں پر گئی۔ ارے بھائی ! اگر معاشرے میں یہ روایت نا ڈلتی کہ بہو کا اصل نام عائشہ نہیں بلکہ روٹی ہے کیوں کہ ہم لائے ہی اسے روٹی بنانے کے لیے تھے تو شاید مائیں بھی اتنی چھوٹی سی عمر میں اپنی بچیوں کو چولھے کے سامنے نا کھڑی کرتی۔
بات آسان لفظوں میں یہی ہے کہ روٹی کچھ اور ہے اور عائشہ کچھ اور ہے۔ عائشہ کو روٹی پکانی آنی چاہیے لیکن صرف اِس لیے کہ وہ اپنے آپ کو بھوکا رہنے سے بچا سکے۔ نا کہ اس کی روٹی کی بنیاد پر ایک خاندان کی عزت جیسی بلاوجہ نازک چیز کا انحصار ہو

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مہوش بھٹی کبھی کبھی سوچتی اور کبھی کبھی لکھتی ہیں۔ اکثر ڈیجیٹل میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp