پاکستان میں دستیاب اعدادوشمار کے مطابق سال 2022 میں توانائی کے شعبے سے وابستہ سرکاری اداروں کے 189000 ملازمین نے 8 ارب 19 کروڑ روپے مالیت کی بجلی مفت استعمال کی۔ اب حکومت اس منصوبہ پر غور کر رہی ہے کہ ملازمین کو مفت بجلی کی جگہ تنخواہ میں مزید رقم شامل کر کے دی جائے۔
کچھ عرصہ قبل شعبہ توانائی کے ریگولیٹر ادارے نیپرا کی جانب سے فراہم کردہ ڈیٹا میں مفت بجلی استعمال کرنے والوں سے متعلق ہوشربا تفصیلات دیتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ سرکاری ملازمین نے ایک برس میں 34 کروڑ 46 لاکھ یونٹس بجلی مفت استعمال کی۔
اسی سلسلے سے جڑے ایک سوال کے جواب میں جمعرات کو وزارت توانائی نے ایوان کو بتایا ہے کہ سرکاری ملازمین کو دی جانے والی مفت بجلی کے بدلے انہیں رقم دینے کا منصوبہ زیرغور ہے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزارت توانائی نے جہاں تقسیم بجلی سے متعلق سرکاری اداروں کے ملازمین کے بجلی چوری میں ملوث ہونا تسلیم کیا وہیں ایسے ملازمین و افسران کی تفصیل بھی مہیا کی ہے۔
سرکاری ڈیٹا میں تسلیم کیا گیا کہ بجلی چوری یا اس میں سہولت کاری کی پاداش میں 10 سرکاری ڈسکوز کے 743 ملازمین وافسران کے خلاف کارروائی ہوئی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ 422 اہلکاروں کا تعلق حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی، 124 ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی، 118 لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی، 44 فیصل آباد، 12 ٹیسکو اور سیپکو جب کہ 11 کا تعلق اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی سے ہے۔
سرکاری ملازمین و افسران کو کتنے یونٹس بجلی مفت دی جاتی ہے؟
ماضی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو دیے گئے نیپرا ریکارڈ کے مطابق توانائی کے شعبے سے وابستہ ایک تا درجہ چہارم کے حاضر سروس ملازمین 100 یونٹ جب کہ ریٹائرڈ کو 50، پانچویں سے 10ویں اسکیل تک حاضر سروس 150 اور ریٹائرڈ کو 75 یونٹس، 11ویں سے 15ویں اسکیل تک حاضر سروس کو 200 اور ریٹائرڈ کو 100 یونٹس بجلی مفت دی جاتی ہے۔
16ویں اسکیل کے حاضر سروس کو 300، 17ویں کو 450، 18ویں کو 600 یونٹس، 19ویں گریڈ کو 880، 20ویں کو 1110 اور 21 و 22 گریڈ کو 1300 یونٹس مفت دیے جاتے ہیں۔ ان پے اسکیلز کے ریٹائرڈ افسران کو حاضر سروس کے نصف یونٹس مہیا کیے جاتے ہیں۔
قبل ازیں وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر کی جانب سے قومی اسمبلی میں بھی ایسے اعدادوشمار پیش کیے گئے تھے۔ جس کے مطابق واپڈا اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (دس کمپنیاں) کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین کو ان کے پے اسکیل کے مطابق مفت بجلی کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔
سرکاری ملازمین اور افسران کو یہ سہولت ایک ایسے وقت میں فراہم کی جا رہی ہے جب گزشتہ چند برسوں سے پاکستان کی بجلی پیدا کرنے کی اہلیت میں مسلسل کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ دوسری جانب بجلی کی فی یونٹ قیمت میں مسلسل اضافہ کے بعد یہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔
وزارت بجلی کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ مالی سال 2023 میں پیدا ہونے والی بجلی 126 ارب یونٹ رہی جو سالانہ بنیاد پر 10 فیصد کم ہے۔ یہ گزشتہ ایک دہائی میں بجلی پیدا کرنے کی استعداد میں سب سے زیادہ کمی ہے۔
جون 2023 میں پاکستان نے اوسطا 10.5 ارب یونٹ بجلی پیدا کی جو گزشتہ برس کے اسی مہینے سے ایک فیصد کم جب کہ گزشتہ دو برس میں کسی ایک ماہ کے دوران ہونے والی سب سے کم پیداوار ہے۔ گویا ہر روز 33 کروڑ یونٹس بجلی پیدا ہوئی۔
توانائی کے شعبے سے وابستہ ماہرین کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ، رہائشی صارفین کے لیے سلیب ریٹس کی سہولت کا خاتمہ اور صنعتوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم ہونے سے بجلی کی طلب میں اضافہ کا امکان کم ہے۔
ماہرین کو خدشہ ہے کہ بجلی کی پیداوار میں مسلسل کمی کا سب سے زیادہ نقصان صارفین کو بھگتنا ہو گا۔ انفراسٹرکچر کی لاگت سابقہ جیسی رہے گی جب کہ کم بجلی پیدا ہونے سے وہ لاگت تقسیم نہ ہو سکے گی نتیجتا صارفین کو مہنگی بجلی ملے گی۔
اسی دوران بجلی کی پیداوار کی قیمت میں کمی کی اچھی خبر سامنے آئی۔ جون 2023 میں ایک کلوواٹ بجلی 9.63 روپے کی قیمت سے بنی جو گزشتہ برس جون میں 14.72 روپے تھی۔
حصص کے کاروبار سے وابستہ ادارے عارف حبیب لمیٹڈ کے مطابق مقامی کوئلے کو استعمال کرنے والے پلانٹس کے پاور پروڈکشن سسٹم میں شامل ہونے سے 32 فیصد لاگت کم ہوئی ہے۔
فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 28 فیصد، آر ایل این جی کی قیمت میں 15 فیصد کمی واقعہ ہوئی۔ البتہ جوہری، ہائیڈل اور سولر ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت میں 47، 12 اور 22 فیصد کا اضافہ ہوا۔
بجلی کی پیداوار کی لاگت میں کمی کے باوجود صارفین کو فائدہ منتقل نہ ہوا تو متعدد افراد نے اس پر تشویش کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر سید محمد فرحت اللہ نے اپنے تبصرے میں کہا کہ پورا ملک لوڈ شیڈنگ یا مہنگی بجلی کا عذاب جھیل رہا ہے۔ ایسے میں بجلی کی لاگت میں کمی کا فائدہ صارف کو کیوں منتقل نہیں کیا جا رہا۔
بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن (ٹی اینڈ ڈی) نقصانات بھی ایک اہم مسئلہ ہے جو توانائی کے شعبے کے لیے پریشان کن ہیں۔ نیپرا کے مطابق مالی سال 2021-22 میں تقریبا 72 ارب روپے کی بجلی ان نقصانات کی وجہ سے ضائع ہوئی۔
مفت بجلی کی قیمت کون ادا کرتا ہے؟
نیپرا کی جانب سے مالی سال 2021-22 سے متعلق تیار کردہ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ لاگت صارفین کو منتقل کر دی جاتی ہے۔
قبل ازیں قومی اسمبلی میں جمع کروائے گئے ایک جواب میں وزیر توانائی خرم دستگیر تسلیم کر چکے ہیں کہ مفت بجلی کی قیمت کا بوجھ ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اٹھاتی ہیں۔
پاکستان میں بجلی کی تقسیم کا کام سرکاری شعبے کے دس اور ایک نجی کے الیکٹرک کے ذمہ ہے۔ ان میں پیسکو، آئسکو، گیپکو، فیسکو، لیسکو، میپکو، کیسکو، سیپکو، حیسکو شامل ہیں۔
نیپرا کی گزشتہ مالی سال کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بجلی کی تقسیم کے ذمہ دار اداروں کو ٹیرف میں ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن لاسز کی 13.46 فیصد مقدار کی اجازت ہے تاہم اصل خسارہ 16.69 فیصد ہے۔
سب سے زیادہ نقصانات پیسکو، سیپکو، کیسکو، حیسکو اور کے الیکٹرک کے رپورٹ ہوتے ہیں۔ بجلی ضائع کرنے والے اداروں آئسکو کی شرح سب سے کم ہے۔
پیسکو نے ایک سال میں 63 ارب، آئسکو نے 21 کروڑ، لیسکو نے 9 ارب، کیسکو نے 18 ارب روپے، حسیکو نے 14 ارب، سیپکو نے 21 ارب، کا نقصان کیا۔
مجموعی طور پر بجلی کی تقسیم سے وابستہ اداروں نے مالی سال 2021-22 کے دوران 122.59 ارب روپے کا نقصان کیا۔ ان اداروں نے مالی سال کے دوران 2686.787 ارب روپے کے بل بھیجے جس میں سے 1695.97 ارب روپے وصول نہیں کیے جا سکے۔
توانائی کے شعبے سے وابستہ ماہرین کے مطابق مفت بجلی کو عام طور پر ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن نقصانات جیسی مدات کا حصہ بنا کر بجلی کے پیداواری اخراجات میں گنا جاتا ہے۔
ایسا کرنے سے بجلی کی پیداوار کی اصل قیمت میں یہ رقم بھی شامل ہوجاتی ہے اور پھر عام صارف کو یہ ادا کرنا پڑتی ہے۔