سپریم کورٹ: آرمی کورٹس میں سویلینز کا ٹرائل، فل کورٹ بنانے کی ایک اور درخواست دائر

پیر 31 جولائی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف کیس میں ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔

سپریم کورٹ میں سویلیئنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف نئی درخوست شہری کرامت علی کی جانب سے دائر کی گئی ہے، جس میں استدعا کی گئی کہ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا کیس مفاد عامہ کا ہے، اس پر فل کورٹ بنایا جائے۔

درخواست گزار کرامت علی کے وکیل فیصل صدیقی نے فل کورٹ تشکیل دینے کی متفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کرتے ہوئے مؤقف اپنایا ہے کہ ماضی میں بھی فوجی ٹرائل سے متعلق کیس 9 ممبرز بینچ یا فل کورٹ نے ہی سنا ہے، وفاقی حکومت نے بھی فل کورٹ بنانے کی استدعا کی جس کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

درخواست گزار کے مطابق حکومت کے کئی وزراء بھی موجودہ بینچ پر پبلک میں تنقید کر چکے ہیں، فل کورٹ کے فیصلے پر آج تک اسٹیبلشمنٹ سمیت سب نے عمل کیا ہے، سپریم کورٹ کے موجودہ بینچ کے رکن جسٹس یحیی آفریدی بھی فل کورٹ بنانے کا کہہ چکے ہیں۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ ہو، چیف جسٹس پاکستان دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ بنا کر کیس سنیں، اٹارنی جنرل پہلے ہی یقین دہانی کرا چکے کہ کسی سویلین کا ٹرائل شروع نہیں ہوا، فل کورٹ کا فیصلہ آنے سے سویلینز کا فوجی عدالت میں ٹرائل کا معاملہ ایک ہی بار حل ہو جائے گا۔

آرمی ایکٹ ہے کیا اور مقدمات کیسے چلائے جاتے ہیں؟

پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوجی اہلکاروں کے خلاف ٹرائل عمل میں لایا جاتا ہے تاہم اس ایکٹ میں کچھ شقیں ایسی بھی موجود ہیں جن کے تحت سویلینز کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

آرمی ایکٹ کے تحت کام کرنے والی فوجی عدالتیں جی ایچ کیو ایجیوٹنٹ جنرل (جیگ) برانچ کے زیرنگرانی کام کرتی ہیں اور اس عدالت کی سربراہی ایک حاضر سروس فوجی افسر کرتے ہیں۔

سنہ 2015 میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں قائم کرنے کے منظوری دی گئی تھی جن کا بنیادی مقصد دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث افراد کے خلاف تیزی سے ٹرائل کرنا اور سزائیں دلوانا تھا۔

کیا ماضی میں سویلینز کے خلاف فوجی عدالتیں فیصلہ دے چکی ہیں؟

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے لیفٹیننٹ کرنل (ر) انعام الرحیم نے بتایا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں جنرل باجوہ نے بطور آرمی چیف 25 ملزمان کو فوجی عدالتوں سے سزاؤں کی توثیق کی تھی۔

ان کے مطابق یہ وہ سویلینز تھے جن پر دہشت گردی نہیں بلکہ جاسوسی، قومی راز دشمن تک پہنچانے جیسے الزامات تھے، ان ملزمان کو کب اور کہاں سے گرفتار کیا گیا؟ اس حوالے سے کوئی معلومات سامنے نہیں لائی گئی تھیں۔

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے مطابق ان افراد میں 3 ملزمان کو سزائے موت اور دیگر کو مختلف سزائیں ہوئی تھیں جن کے خلاف ہائیکورٹس میں اب بھی اپیلیں موجود ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چند سال قبل میجر جنرل ریٹائرڈ  ظفر مہدی عسکری کے بیٹے حسن عسکری کو فوجی عدالت نے 5 برس قید با مشقت کی سزا سنائی تھی۔

حسن عسکری پر الزام تھا کہ انھوں نے 2020 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک خط تحریر کیا تھا جس میں مبینہ طور پر اُن کی مدت ملازمت میں توسیع ملنے اور فوج کی پالیسیوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں مستعفی ہونے کو کہا تھا۔

ان پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے یہ خط دیگر جرنیلوں کو بھی ارسال کیے تھے جس کا مقصد فوج میں بغاوت کرانا تھا۔

کرنل ریٹرائرڈ انعام الرحیم کے مطابق اگرعمران خان کا اس کے تحت ٹرائل کیا جاتا ہے تو انہیں 7 سے 10 برس تک قید کی سزا ہوسکتی ہے جبکہ انہیں اس کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کا حق ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp