سول جج عاصم حفیظ کی اہلیہ کے ہاتھوں تشدد کی شکار 14 سالہ رضوانہ اس وقت لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں زیرِ علاج ہے۔ بچی کے والدین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ سول جج عاصم حفیظ کی اہلیہ بچی پر تشدد کرتی رہی ہیں جس کے باعث آج وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔
اس حوالے سے وی نیوز نے جج عاصم حفیظ سے رابطہ کیا اور پورے معاملے پر ان سے مؤقف لیا۔
مزید پڑھیں
’پورا خاندان سفاکانہ میڈیا ٹرائل کا شکار ہے‘
سول جج عاصم حفیظ نے وی نیوز کو بتایا ہے کہ وہ اور ان کا پورا خاندان سفاکانہ میڈیا ٹرائل کا شکار ہے۔ معاملات ایسے نہیں ہیں جیسے میڈیا پر پیش کیے جا رہے ہیں۔ رضوانہ کے جسم پر جو چوٹیں آئیں اس کا فیصلہ وقت کرے گا لیکن میڈیا کی وجہ سے ہمارے خاندان کا معاشرے میں چہرہ، ساکھ، ذہنی سکون اور عزت سب کچھ برباد ہوچکا ہے۔
’جس روز رضوانہ واپس گئی ٹھیک ٹھاک تھی‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جس روز رضوانہ واپس گئی اس صبح میں ناشتہ کررہا تھا اور وہ میرے پاس سے چلتی ہوئی گئی بلکہ شاید اس نے کچھ چھوٹی موٹی چیزیں بھی اٹھا رکھی تھی اور اس کے بازؤں میں کسی قسم کا مسئلہ محسوس نہیں ہو رہا تھا‘۔
’جج اور ان کے اہل خانہ بھی انسان ہیں‘
عاصم حفیظ نے کہا کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جج اور ان کے اہلِ خانہ بھی انسان ہیں۔ کیا وہ صرف اپنے عہدے کی وجہ سے انسانیت کا درجہ کھو دیتے ہیں؟ کیا وہ دنیا بھر میں اپنے خلاف پھیلائے گئے زہر کے سامنے طاقتور رہ سکتے ہیں؟
’الحمدللہ رضوانہ ہر لمحہ صحتیاب ہو رہی ہے‘
سول جج عاصم حفیظ نے بتایا کہ رضوانہ زیرِ علاج ہے اور الحمدللہ وہ ہر لمحہ صحتیاب ہورہی ہے۔ اللہ اسے جلد صحتیاب کرے لیکن میڈیا ہر لمحے مجھے اور میرے خاندان کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے اور ہم تیزی سے مر رہے ہیں۔
’بے قصور ثابت ہوئے تو خاندان کے زخموں کا ازالہ کون کرے گا‘
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ اگر مستقبل میں یہ ثابت ہوجائے کہ ہمارا قصور نہیں تھا جیسا کہ وسیع پیمانے پر پیش کیا گیا تو کیا کوئی ہمارے دماغ، شہرت، سماجی حیثیت اور ہمارے خاندان کے بارے میں عوامی رائے پر لگنے والے وحشیانہ زخموں کا ازالہ کرسکے گا؟
یہ بھی پڑھیں اسلام آباد: 14 سالہ ملازمہ پر تشدد، سول جج کی اہلیہ پر الزام
سول جج نے کہا کہ میرے بچے مستقبل میں معاشرے کا سامنا کیسے کریں گے۔ ان کے اسکولوں اور ہر جگہ ان کی کیا حیثیت ہوگی؟ وحشیانہ میڈیا ٹرائل سے بہتر ہے کہ ہمیں ذبح کردیا جائے۔
’اتنے دکھی ہیں کہ عام مزدور کی طرح اپنا دفاع نہیں کر پا رہے‘
ایک سوال کے جواب میں سول جج عاصم حفیظ نے بتایا کہ انہیں ملازمت کے ضابطہ اخلاق کے تحت میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں جو ان کی بدقسمتی ہے۔ ادھر عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بہت طاقتور اور بااثر لوگ ہیں لیکن افسوس ہم اتنے دکھی ہیں کہ ایک عام مزدور کی طرح ایسے حالات میں اپنا دفاع بھی نہیں کر پا رہے۔
’فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی سے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں ٹرانسفر کروا لی ہے‘
سول جج کا کہنا تھا کہ ’میں نے میڈیا ٹرائل کی وجہ سے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی سے اپنی پوسٹنگ کھو دی ہے اور آپ اکیڈمی کا دورہ کریں تو معلوم ہوگا کہ میرے جانے پر لوگ افسردہ ہیں اور ان کی آنکھیں نم ہیں۔ صرف ان لوگوں سے پوچھیں جو کسی بھی حیثیت میں میرے حلقے میں رہے ہیں۔ وہ آپ کو بتائیں گے کہ میں کس قسم کی شخصیت کا مالک ہوں پھر آپ کو اندازہ ہوگا کہ میں اور میرے خاندان کو کتنی بربریت کا سامنا ہے۔ اس صورتحال میں، میں نے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی سے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں ٹرانسفر کروا لیا ہے‘۔
’رضوانہ کے بجائے بیگم اور بچوں کو کام کا کہتا تھا‘
رضوانہ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے بتایا کہ ان کی رضوانہ سے کوئی خاص بات چیت نہیں تھی، اسے بہت کم کوئی چیز لانے کو کہا کرتا تھا، کھانا پینا بیوی یا بچوں سے کہہ کر منگواتا تھا۔
’قوانین کے تحت رضوانہ کی ملازمت کی عمر پوری تھی‘
رضوانہ کی عمر کے حوالے سے جج عاصم حفیظ کا کہنا تھا کہ اس کے والدین نے بچی کی عمر 16 سے 17 برس کے درمیان بتائی تھی اور اسلام آباد کے قوانین کے تحت 16 سال کی عمر سے بچے کو ملازمت پر رکھا جا سکتا ہے مگر اب وہ بچی کی عمر کم بتا رہے ہیں جبکہ اس بچی کی عمر کا کوئی کاغذی ثبوت بھی نہیں ہے۔
’رضوانہ گندے ماحول سے آئی تھی خارش اور زخموں کا شکار تھی‘
بچی کی حالت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عاصم حفیظ نے بتایا کہ بیچاری ایسے ماحول سے آئی تھی کہ گندی رہتی تھی اور اکثر چہرہ اور سر پر خارش کرتی رہتی تھی جس کی وجہ سے اس کے سر میں زخم بن چکے تھے اور وہ خراب ہو رہے تھے۔ انفیکشن 8 جولائی سے شروع ہوا اور تب سے ہی میں اس کا علاج کروا رہا تھا۔
’رضوانہ والدین کے واپس جانے سے خوفزدہ رہتی تھی‘
بچی کے گھر جانے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے والدین سے کئی بار ملنے کے لیے گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’میری اہلیہ نے مجھے بتایا تھا کہ بچی خوفزدہ تھی کہ اگر وہ اپنی والدہ کے گھر گئی تو وہ اسے ماریں گے کہ ایک تو تنخواہ بند ہوگی الٹا انہیں کھلانے پلانے کا خرچ بھی برداشت کرنا پڑے گا‘۔
’10 ہزار روپے یا اس سے زیادہ ماہانہ تنخواہ دیتے تھے‘
رضوانہ کے ماہانہ معاوضے کے حوالے سے عاصم حفیظ نے بتایا کہ ’میری بیوی نے اپنی سہیلی کے ذریعہ بچی بلوائی تھی اور 10 ہزار یا اس سے زیادہ رقم اس کے گھر بھیج دیا کرتی تھی‘۔
’کسی حد تک میری اہلیہ کو نفسیاتی مسئلہ ہے‘
میڈیا رپورٹس کے مطابق سول جج عاصم حفیظ کی اہلیہ کو نفسیاتی مسئلہ ہے، اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کے مزاج میں کبھی کبھار سختی آجاتی ہے اور وہ سخت بول بھی لیتی ہے۔ کسی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ اسے یہ مسئلہ ہے مگر اس نے مار پیٹ نہیں کی میری بیوی تو مجھے یہی کہتی ہے۔ میرے گھر سے جاتے وقت بچی کی حالت ایسی نہیں تھی جیسی میڈیا پر دکھائی گئی ہے وہ تو چل پھر رہی تھی۔
’میرے گھر کوئی بھوکا پیاسا رہے تو مجھے مر جانا چاہیے‘
رضوانہ کو بھوکا پیاسا رکھنے کے حوالے سے سول جج نے بتایا کہ اگر میرے گھر میں کوئی بھوکا پیاسا رہے تو مجھے مر جانا چاہیے۔ آپ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں جاکر پوچھیں کہ مجھے ملنے آنے والا خاکروب بھی کبھی کھائے پیے بنا واپس نہیں گیا۔
’رضوانہ کے والدین پیسوں کی لالچ یا کسی کے کہنے پر الزامات لگا رہے ہیں‘
بچی کے والدین جھوٹا الزام کیوں لگائیں گے؟ اس سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ بے اعتبار لوگ ہوتے ہیں۔ یہ یا تو کسی لالچ میں بات کرتے ہیں یا کسی کی ہدایت پر کر رہے ہوتے ہیں، لالچ تو پیسوں کے علاوہ اور کیا ہوگا لیکن ہدایات دینے والے کئی مل جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ 24 جولائی کو بچی کی ماں نے جج کی اہلیہ پر بچی پر تشدد کرنے کا الزام لگایا تھا۔ بچی کو اسپتال پہنچایا گیا تو اس کے سر کے زخم میں کيڑے پڑ چکے تھے اور دونوں بازو ٹوٹے ہوئے تھے اور وہ بیحد خوف زدہ تھی۔
گھریلو ملازمہ بچی پر تشدد کا مقدمہ۔
مضروب بچی اور اس کے والد کا بیان قلمبند کرلیا گیا ہے۔ملزمہ نے یکم اگست تک ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔ اسلام آباد پولیس کو مصدقہ میڈیکل رپورٹ تاحال موصول نہیں ہوئی ہے۔
جرم میں شریک تمام افراد کی چھان بین کی جارہی ہے۔ تمام کارروائی قانون کے مطابق…
— Islamabad Police (@ICT_Police) July 28, 2023
ابتدا میں اسلام آباد پولیس نے یہ مقدمہ صرف حبس بے جا میں رکھنے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کی دفعات کے تحت درج کیا تھا اور اسلام آباد کے سول جج عاصم حفیظ کی اہلیہ نے عدالت سے حفاظتی ضمانت حاصل کر لی تھی۔ بعد ازاں ایف آئی آر میں وحشیانہ تشدد کرکے اعضا توڑنے کی دفعہ 328 اے شامل کر لی گئی تھی۔
کمسن ملازمہ رضوانہ کے والد کا موقف
یہ بھی واضح رہے کہ کمسن ملازمہ رضوانہ کے والد نے کہا تھا کہ سول جج عاصم حفیظ ان پر مقدمہ واپس لینے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بچی کے والد منگا نے کہا تھا کہ ’میری بچی آج سے 6 ماہ قبل کام کرنے کی غرض سے سول جج عاصم حفیظ کے گھر گئی تھی، میرا تعلق سرگودھا سے ہے اور ہم غریب لوگ ہیں۔‘
بچی کے باپ کا مزید کہنا تھا کہ ’اب سول جج عاصم حفیظ میرے بہنوئی کے ذریعے ہم پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ پیسے لے لو اور اس معاملے کو ختم کرو اور میرا بہنوئی بھی کہہ رہا ہے کہ کچھ روز یہ معاملہ میڈیا پر چلے گا اس کے بعد سب خاموش ہوجائیں گے، لہذا رقم لے لو اور اس معاملے کو ختم کرو‘۔
رضوانہ کی دادی کا بچی کے منہ میں تیزاب ڈالنے کا الزام
اس کے علاوہ لاہور جنرل اسپتال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رضوانہ کی دادی نے کہا تھا کہ بچی کی حالت تشویشناک ہے، ہمیں بچنے کی امید نہیں ہے۔
رضوانہ کی دادی کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں انصاف ملنا چاہیے، ملزمہ کو فوری گرفتار کیا جائے، ہمیں ابھی تک کوئی انصاف نہیں ملا، ہماری بیٹی زندہ بچتی ہے یا نہیں کوئی پتا نہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ملزمان نے بچی کے منہ میں تیزاب ڈالا ہے تاکہ رضوانہ کوئی بیان نہ دے سکے۔ اس کے دانت اور ناخن تک توڑ دیے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب معاملے کا فوری نوٹس لیں، پنجاب حکومت ہماری مدد کرے۔