حادثہ ہو جائے تو چندہ کر کے لاشیں منتقل کرتے ہیں’ شاہراہ قراقرم کا ہیرو عبدالقیوم’

منگل 1 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

قراقرم سے تعلق رکھنے والے عبدالقیوم نے ریسکیو ٹیموں کے ساتھ مل کر حادثے کا شکار ہونے والے کئی مسافروں کی جانیں بچائی ہیں۔

عبدالقیوم کا کہنا ہے کہ ’میرے دل میں ایک ہی چاہت ہے کہ میں ریسکیو ٹیموں کے ساتھ مل کر شاہراہ قراقرم پر حادثے کا شکار ہونے والے لوگوں کی مدد کروں، میں نے اب تک حادثے کا شکار ہونے والی گاڑیوں کے 200 سے زائد مسافروں کو ریسکیو کیا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ جب کوئی حادثہ ہوتا ہے تو ضلعی انتظامیہ یا عام شہریوں کی جانب سے انہیں اطلاع دے دی جاتی ہے اور وہ فوراً جائے حادثہ پہنچ جاتے ہیں۔

ایک درناک ترین حادثے کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میری زندگی کا دردناک ترین حادثہ وہ تھا جب سال 2002 میں پٹن کے قریب ایک بس کھائی میں گری تھی اور جس میں 18 افراد جاں بحق ہوئے تھے، اس وقت کوہستان میں ریسکیو محکمہ نہیں تھا، شدید گرمی اور انسانی اعضا بکھرے پڑے تھے اور کوئی سہولت نہیں تھی ہم رسیوں کی مدد سے کھائی میں اترے اور لاشیں نکالیں‘۔

ریسکیو اہلکاروں کو بھی ریسکیو کیا

عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ شروع شروع میں ڈر لگتا تھا کیوں کہ یہاں حادثے کا شکار ہونے والوں کے جسم کے ٹکڑے ہوجاتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ڈر ختم ہوگیا اور اب تو یہ معمول بن چکا ہے انہوں نے بتایا کہ مندرازہ میں آرمی کی گاڑی حادثے کا شکار ہوئی تھی جس میں 2 جوان شہید ہوئے تھے، کھائی سے لاشیں نکالنے کے لیے ریسکیو کی ٹیم اتری تھی مگر اس کے اہلکار واپس نہیں نکل سکتے تھے پھر ہم نے ریسکیو اہلکاروں کو بھی ریسکیو کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ شاہراہ قراقرم پر ملک کے مختلف حصوں کے لوگ حادثے کا شکار ہوتے ہیں اکثریت گلگت بلتستان، سوات،دیر، پشاور، لاہور اور دیگر شہریوں کی ہوتی ہے۔ اور انہوں نے لاشیں کوہستان سے گلگت، دیر، سوات، پشاور، اسلام آباد اور پنڈی تک ورثا تک پہنچائی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ لاشیں پہنچانے کے لیے انہیں کوہستان کے مقامی لوگ چندہ دیتے ہیں اور اس حوالے سے سینیٹر محمد طلحہ محمود نے ان کی خصوصی مدد کی، وہ سنہ 2014 سے انہیں تابوت کے پیسے فراہم کرتے ہیں۔

عبدالقیوم نے کہا کہ ’میں نے طلحہ محمود سے کہا کہ تابوت پر ان کے فاؤنڈیشن کا لوگو لگاتا ہوں تو انہوں نے منع کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک مشکل علاقہ ہے اور ریسکیو کے دوران بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرا کولئی کا ایک رضا کار جلتے گھر سے بچوں کو بچاتے ہوئے سلنڈر بلاسٹ ہونے سے جاں بحق ہوچکا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ قراقرم کے پاس رہنے والے مقامی لوگوں کے پاس میرا فون نمبر ہے حادثے کی صورت میں اطلاع کرتے ہیں اور ہم ریسکیو آپریشن کے دوران ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کھائی میں اترتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہاں اگر زرا سا پاؤں پھسل جائے تو دریائے سندھ میں ہی گرنا ہوتا ہے۔

عبدالقیوم کا عزم ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی وقف کردی ہے اور جب تک وہ زندہ ہیں لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

اپنی کاوشوں کی پذیرائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے انہیں سرٹیفکیٹس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔

انہوں نے بتایا کہ سیلاب یا قراقرم کی بندش کے باعث  پھنسے لوگوں کو ہم اپنے ہجروں اور گھروں میں پناہ دیتے ہیں۔

انہوں نے گزشتہ سیلاب میں پھنسے ہوئے دوبیر کے 16 لوگوں کو نکالا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ’امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے خاندان کے 6 افراد جاں بحق ہوئے جن کی لاشیں ہم نے پہنچائی تھیں  اور پھر ان کے رشتہ دار ہمارے ہاں آئے اور ہمارا شکریہ ادا کیا‘۔

عبدالقیوم کو وہ افراد ہمیشہ یاد رکھتے ہیں جنہیں انہوں نے کبھی کسی حادثے میں بچایا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ملک کے مختلف اضلاع سے وہ افراد مجھے فون کرتے اور ملنے بھی آتے ہیں جنہیں میں نے کبھی ساتھیوں سمیت زخمی حالت میں اسپتال پہنچایا تھا‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp