انتخابات میں کتنی تاخیر ہوسکتی ہے؟

جمعرات 3 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ دنوں نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق ہوں گے، جس پر حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں نے حیرت کا اظہار کیا ہے اور وزیراعظم کے اس بیان پر مشاورت نہ کرنے کا شکوہ بھی کیا ہے۔

اس اعلان کے ساتھ ہی یہ بحث بھی شروع ہوگئی ہے کہ نئی مردم شماری کے مطابق اگر انتخابات ہوئے پھر ان میں کتنی تاخیر ہوسکتی ہے۔

نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیوں کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا؟

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر وزیراعظم چاہتے ہیں کہ انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق ہوں تو پھر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ابھی تک کیوں نہیں بلایا گیا؟

انہوں نے کہا کہ ’نئی مردم شماری کو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس سے توثیق کے بغیر مردم شماری کے نتائج شائع نہیں کیے جاسکتے، یہ آئینی تقاضا ہے کہ مردم شماری کی توثیق مشترکہ مفادات کونسل سے لی جائے۔‘

کنور دلشاد نے کہا کہ ‘وزیراعظم نے تاحال مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا۔‘

دوسری جانب انتخابات اور پارلیمانی امور پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم پٹن کے سربراہ سرور باری نے کہا کہ ’نئی مردم شماری پر ایم کیوایم سمیت متعدد سٹیک ہولڈرز کے تحفظات ہیں، نئی مردم شماری کے مطابق انتخابات کروانے کا اعلان سیاسی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ’وزیراعظم اس آئینی مسئلے کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مشترکہ مفادات کونسل میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نگراں حکومت کیسے صوبے کی نمائندگی کرسکتی ہے؟ نگراں حکومت کے پاس یہ اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ اس قدر بڑے فیصلے کرسکے، اس لیے یہ اس معاملے کو سیاست کے لیے استعمال کیا جارہا ہے

الیکشن کمیشن کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ ’مشترکہ مفادات کونسل سے نئی مردم شماری کے نتائج کی توثیق نہ ہونے کی صورت میں الیکشن کمیشن بااختیار ہے کہ وہ پرانی حلقہ بندیوں پر ہی الیکشن کروائے۔‘

انہوں نے کہا ’الیکشن کمیشن اپنے آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے آئینی مدت کے اندر انتخابات کروائے گا اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن کی تیاریاں جاری ہیں۔‘

سرور باری کے خیال میں ’نئی حلقہ بندیوں کے لیے آئننی ترمیم کی ضرورت ہوگی جس کے لیے دو تہائی اکثریت کا ہونا ضروری ہے، اس لیے جب قومی اسمبلی تحلیل ہوجائے گی تو پھر آئینی ترمیم کا ہونا ممکن نہیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp