مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ایکس جسے پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا کیا ایک مرتبہ پھر تبدیلی کے لیے پر تول رہی ہے؟ حقیقتاً کیا ہوگا یہ تو وقت بتائے گا تاہم ایکس کے سربراہ ایلون مسک نے اسے ’ایوری تھنگ ایپ‘ میں تبدیل کرنے کی خواہش کا عندیہ دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے ٹوئٹر کے نام اور اس کے مشہورِ زمانہ برڈ لوگو کو ترک کرنے کے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے ایک پوسٹ میں، ایلون مسک نے کہا کہ ٹوئٹر سے ایکس میں تبدیل شدہ پلیٹ فارم کو وسعت دیتےہوئے ’جامع مواصلات اور آپ کی پوری مالیاتی دنیا کو چلانے کی صلاحیت‘ کے طور پر پیش کیا جائے گا۔
بظاہر ایلون مسک کے منصوبے چینی سپر ایپ وی چیٹ سے متاثر ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وی چیٹ سوشل میڈیا، ڈیجیٹل ادائیگیوں، انٹرنیٹ براؤزنگ اور بہت کچھ کو ایک ہی ایپ میں یکجا کرتی ایپلیکیشن ہے، جو 2011 میں ٹیک کمپنی ’ٹین سینٹ‘ کی جانب سے اجراء کے بعد سے چین میں روزمرہ زندگی کا ایک عام حصہ بن گیا ہے۔
وی چیٹ ایک بڑی کامیابی کیسے بنی؟
وی چیٹ چین میں مختلف وجوہات کی بنا پر کامیاب رہی ہے تاہم سب سے اہم عنصر اس کے اجراء کا وقت تھا۔ 2011 میں محدود انفرا اسٹرکچر اور ایک بڑی دیہی آبادی کی وجہ سے چین میں 1 ارب 30 کروڑ کی آبادی میں صرف ساڑھے 48 کروڑ لوگ انٹرنیٹ صارفین تھے۔ ملک میں کریڈٹ کارڈ کی رسائی بھی محدود تھی، بہت سے لوگ نقد پر بہت زیادہ انحصار کرتے تھے۔
ایسے میں وی چیٹ اور اسی نوعیت کی دیگر حریف ایپس کی آمد نے صارفین کی زندگی آسان بناتے ہوئے انہیں اپنے موبائل فون پر ادائیگی کی خدمات اور دیگر سہولتوں تک رسائی کی اجازت دی۔ ٹریویم چائنا کے ٹیک پالیسی ریسرچ کے سربراہ کینڈرا شیفر نے کہا کہ چینی صارفین اچانک ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کے براڈ بینڈ کے دور سے ایک ہی جست میں اسمارٹ فونز اور ایپس کی کی دنیا میں پہنچ گئے۔
امریکا میں ’ہر چیز ایپ‘ کی کامیابی کے امکانات کے ضمن میں کینڈرا شیفر کچھ تشکیک کا شکار نطر آئے۔ ان کے مطابق وی چیٹ نے چین میں سماجی و اقتصادی سیاق و سباق کی ضرورت کو پورا کیا ہے، اسے صرف اٹھا کر یہاں نقل کرتے ہوئے متعارف کرانا ضروری نہیں ہے کہ وہی کام سر انجام دے پائے کیونکہ امریکا میں انٹرنیٹ صارفین کا تنوع مختلف ہے۔
2023 میں امریکی انٹرنیٹ کا نظام 2011 میں چین کے مقابلے میں بہت بڑا اور زیادہ بکھرا ہوا ہے۔مارکیٹ بھی کہیں زیادہ مسابقتی ہے۔ ایلون مسک کی مجوزہ سپر ایپ کو ٹِک ٹاک ، جو امریکہ میں ای کامرس کاروبار شروع کرنے کی خواہاں ہے، کی پسندیدگی سمیت کووڈ نائنٹین کی وبا کے بعد سے ہر جگہ موجود گوگل پے اور ایپل پے سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔
کینڈرا شیفر سمجھتے ہیں کہ ’کامیابی کی خفیہ چٹنی‘ کے طور پر ایلون مسک کو اپنی سپر ایپ میں ادائیگی کے پلیٹ فارم کو ضم کرنے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ صارفین کو فریق ثالث کے لنکس پر کلک کرنے سے آزاد کر دے گا، لیکن اس طرح کے انضمام نے اب تک امریکی ڈویلپرز کو نظر انداز کر دیا ہے۔
’مجموعی طور پر چینی ایپس نے کچھ سوچ لیا تھا اور ایک خاص چیز پر عملدرآمد کیا ہے جو کسی بھی امریکی ایپ نے نہیں کیا ہے۔ کسی بھی بڑے امریکی پلیٹ فارم نے ایسا کچھ منظم نہیں کیا ہے، جس میں سماجی پلیٹ فارم میں ہی ادائیگی اور خریداری کی خصوصیات شامل ہیں۔ ہم ابھی اس میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔‘
چینی حکومت نے وی چیٹ کی کامیابی میں کس طرح اہم کردار ادا کیا؟
وی چیٹ جیسی سپر ایپس نے جزوی طور پر چینی ریاست کی حمایت کی بدولت کامیابی حاصل کی ہے – ایک طاقتور قوت جس کا امریکہ یا مغربی تناظر میں مقابلہ کرنا مشکل ہے۔
بیجنگ نے فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب جیسے غیر ملکی پلیٹ فارمز پر پابندی لگاتے ہوئے وی چیٹ جیسی مقامی ایپس کی توثیق کی ہے جو خود کو سماجی کنٹرول اور حکومتی سنسرشپ کے لیے اچھی طرح سے تیار رکھتی ہیں۔
چین کے بیشتر سرکاری محکمے اور مقامی حکام وی چیٹ اکاؤنٹس کو معلومات کے پھیلاؤ کے طریقے کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں، جس میں حال ہی میں شہریوں سے انسداد جاسوسی کی کوششوں میں شامل ہونے اور مشکوک سرگرمی کی اطلاع دینے کا مطالبہ شامل ہے۔
اٹلانٹک کونسل کے گلوبل چائنا ہب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کٹش لیاؤ کا خیال ہے کہ چائنیز ڈیجیٹل تبدیلی کے رجحان سے کچھ چیزیں بچ گئیں لیکن وی چیٹ جیسی سپر ایپس شہریوں کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو سیاسی کنٹرول کے لیے منظم کرنے کے ریاست کے عزائم کے ساتھ اچھی طرح سے مربوط ہیں۔
ایلون مسک کو کون سے دوسرے چیلنجز کا سامنا ہے؟
سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایلون مسک کی ملکیت ایک بار ٹوئٹر کے نام سے مشہور تھی۔ پچھلے سال 44 ارب ڈالر میں ٹوئٹر خریدنے کے بعد، ایلون مسک نے کمپنی کے تین چوتھائی سے زیادہ ملازمین کو برطرف کیا اور اعتدال میں تبدیلیاں متعارف کروائیں جن کا الزام پلیٹ فارم پر نفرت انگیز تقاریر میں اضافے اور مشتہرین کے اخراج کے لیے قرار دیا گیا ہے۔
کمپنی کی سبسکرپشن پر مبنی ٹوئٹر بلیو سروس نے صارفین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے جدوجہد کی ہے، جبکہ ایکس کے لیے ری برانڈ کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
پچھلے مہینے، ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے ارب پتی سی ای او ایلون مسک نے اعتراف کیا کہ ان پیش گوئیوں کے باوجود کہ کمپنی اس سال تک نفع نقصان میں یکسانیت اختیار کرلے گی، کمپنی کی اشتہاری آمدنی میں تقریباً 50 فیصد کمی آئی ہے اور کیش فلو منفی ہے۔
اپنے حالیہ اختراع ایکس کو اگلے درجے تک لے جانے کی تگ ودو میں مصروف ایلون مسک کو غور کرنے کے لیے تکنیکی چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ انہیں یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہوگی کہ ممکنہ طور پر امریکہ میں قائم سپر ایپ بیک اینڈ پر کیسے کام کرے گی۔
اٹلانٹک کونسل کے گلوبل چائنا ہب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کٹش لیاؤ کے مطابق عالمی سطح پر قابلِ عمل ہونے کے لیے ان چیلنجز میں کرنسی کے انتخاب، صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ اور رازداری جیسے مسائل سے نمٹنا بھی شامل ہیں۔
یو ایس ٹیک کمپنیاں جیسے میٹا اور گوگل پہلے ہی یوروپی یونین میں صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ کے خدشات اور مسابقت مخالف طریقوں پر مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ مسک کی ’ہر چیز‘ یعنی ’ایوری تھنگ‘ ایپ صرف امریکہ میں جاری ہوگی یا ایک ہی وقت میں متعدد خطوں میں کام کرے گی۔
وی چیٹ کا چین سے باہر محدود استعمال ہے اور اسے صرف بیجنگ میں موجود ایک ہی حکومت کو جواب دہ ہونے کا فائدہ حاصل ہے۔ کٹش لیاؤ کے مطابق ان تمام خدشات کے باوجود یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ یہ زیادہ لبرل اور صارفین کے حقوق پر مبنی مغربی مارکیٹوں کے لیے ایک امید افزا یا قابل عمل ماڈل ہے۔