اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں عمران خان کی حق دفاع ختم کرنے کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
قبل ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت آج 3 بجے تک روکنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم سماعت کے دوبارہ آغاز کے بعد اس حوالے سے فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
توشہ خانہ کیس قابلِ سماعت قرار دینے کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہمارا عدالتی نظام بہترین نہیں ہے، اس میں خامیاں موجود ہیں، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ یہ خامیاں ختم ہو سکیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے اور مقدمہ کی کارروائی پر حکمِ امتناع کی درخواست بھی دائر کی گئی ہیں۔ عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے خواجہ حارث اور بیرسٹرگوہر جب کہ الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ 31 جولائی کو 342 کا بیان ہوا۔ کل گواہوں کی فہرست عدالت میں جمع کرائی اور کہا 24 گھنٹے میں گواہ دستیاب نہیں ہو سکے۔ ٹرانسفر درخواست پر جب تک فیصلہ نہیں ہو جاتا تب تک ٹرائل کورٹ حتمی فیصلہ نہیں دے سکتی۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ٹرائل کی ایسی بھی کیا جلدی ہے ایک دن بھی گواہ لانے کے لیے نہیں دیا گیا۔ ہم نے حق دفاع ختم کرنے کا کل کا آرڈر بھی آج چیلنج کیا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے جج سے متعلق ایف آئی اے کی ابتدائی رپورٹ بھی آئی ہے۔ آپ کی ٹرانسفر درخواست جانبداری کی بنیاد پر ہے؟ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر جج جو کیس سن رہے ہیں وہ جانبداری ہے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ اس میں کہا گیا ہے جج کے فیس بک اکاؤنٹ سے وہ پوسٹ نہیں ہوئی، یکطرفہ رپورٹ کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے عدالت سے ٹرائل کورٹ کو مزید کارروائی آگے بڑھانے سے روکنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ میں ہماری آٹھ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر ہیں۔ میرے حوالے سے ٹرائل کورٹ نے لکھا کہ انہوں نے سسٹم کو تباہ کر دیا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہمارا سسٹم پرفیکٹ نہیں اس میں کچھ خامیاں ہیں، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ یہ خامیاں ختم ہو سکیں۔ میری خواہش ہے کہ ہم رولز میں یہ شامل کرسکیں کہ ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر ہو۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سب سے بڑا بوجھ اب اس عدالت کے پر ہے۔ ہائی کورٹ نے ہماری درخواستوں پر فیصلہ کرنا ہے، پہلی درخواست توشہ خانہ کیس کو قابل سماعت قرار دینے کے فیصلے کے خلاف ہے۔ ہم عدالتوں میں انصاف کے لیے آتے ہیں ، ہمارا مقصد کسی کو برا بھلا کہنا نہیں۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کا موقف تھا کہ زیر التوا کیس پر کسی بھی فریق کو کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیاسی مقدمات میں ایک بحث صبح اور ایک شام کو ہوتی ہے، شام کو سیاسی کیسز پر بحث سے رائے عامہ ہموار ہوتی ہے، الیکٹرونک میڈیا کی بات کر رہا ہوں کہ 8 سے بارہ بجے تک کیا چلتا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کافی سیاسی مقدمات کیے مگر آپ کو کبھی 8 بجے کسی چینل پر نہیں دیکھا، پرانے وقتوں میں تو کہتے تھے کہ ججز اخبارات بھی نہ پڑھیں۔ خواجہ حارث بولے؛ جج کا یہ کام نہیں کہ وہ سوچے کہ فیصلے سے عوام کیا سوچے گی۔
خواجہ حارث کے مطابق پہلی درخواست توشہ خانہ کیس قابل سماعت قراردینے کے فیصلے کے خلاف ہے، الیکشن کمیشن کی شکایت قانون کے مطابق درست طور پر دائر نہیں کی گئی، اس نجی شکایت کو مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کیا جا سکتا تھا یہ شکایت براہ راست سیشن عدالت میں دائر نہیں ہو سکتی تھی۔
خواجہ حارث کے اس موقف پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ مجسٹریٹ نے ابتدائی طور پر کرنا کیا ہوتا ہے؟ اس میں منطق کیا ہے؟ جس پر خواجہ حارث بولے؛ مجسٹریٹ نے دستاویزات کی اسکروٹنی کرنا ہوتی ہے۔ ’میں بھی یہ سوچتا ہوں کہ منطق کیا ہے لیکن قانون کے مطابق یہی طریقہ کار ہے۔‘
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرلیے، جس کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیے۔ بعد ازاں عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں توشہ خانہ کیس کی سماعت جمعے کی صبح 8:30 بجے تک ملتوی کر دی۔