سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کی کتاب ‘lost to the world’ شائع ہو گئی ہے، اس کتاب میں شہباز تاثیر نے عسکریت پسندوں کی قید میں گزرے 5 برسوں کا احوال بیان کیا ہے۔
شہباز تاثیر نے نجی ٹی وی کے مارننگ شو میں گفتگو کرتے ہوئے بھی عسکریت پسندوں کی قید میں بیتے 5 برسوں کے احوال سے پردہ اٹھایا ہے، شہباز تاثیر نے ان کے اغوا ہونے کے واقعے سے متعلق گفتگو میں کہا ہے کہ جس دن وہ اغوا ہوئے وہ ان کے لیے بہت عجیب دن تھا۔
شہباز تاثیر کو اغوا کرنے والے کتنے افراد تھے؟
شہباز تاثیر نے بتایا کہ ’ اس دن میں صبح سویرے اٹھا، تیار ہو کر دفتر کے لیے روانہ ہو گیا، لاہور کی ایم ایم عالم روڈ پر اچانک 10 کے قریب افراد چھلانگیں لگاتے ہوئے میری گاڑی کے سامنے آگئے، ان کے پاس اے کے 47 تھیں، بعض نے چہروں پر ماسک پہنے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے میری گاڑی سے باہر نکالا اور ایک دم مارنا شروع کر دیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ’ اس وقت میں سمجھا کہ یہ کار ڈکیتی ہے اور یہ لوگ میری گاڑی چھیننا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنے بازو پر پہنی گھڑی اتار کر ان کو دیدی، اپنا بٹوا بھی ان کو دے دیا، وہ لوگ مجھے مارتے مارتے اپنی گاڑی تک لے گئے۔ جب وہ مجھے گاڑی میں ڈال رہے تھے تو میں نے ان کو کہا کہ میں نے سب کچھ تو آپ کو دے دیا ہے، میں پولیس کو بھی نہیں بتاؤں گا، گاڑی لو اور جاؤ۔‘
شہباز تاثیر نے کہا کہ بعد میں ایک اغوا کار نے مجھے کہا کہ شہباز! میں تمہارے لیے آیا ہوں، میں حیران ہوا کہ اس کو میرا نام کیسے پتہ ہے۔
’ میرے والد سلمان تاثیر کا کچھ عرصہ قبل قتل ہوا تھا اور انتہا پسندی کی وجہ سے ہوا تھا۔ میں کسی کام کے لیے دبئی سے پاکستان آیا ہوا تھا۔ جب عسکریت پسندوں نے اچانک مجھے اغوا کیا اور یہ بھی پتہ چلا کہ وہ میرا نام بھی جانتے تھے، تو میں ایک دم گھبرا گیا۔ میں نے سوچا کہ ٹی وی پر جیسے خبریں چلتی ہیں کہ عسکریت پسندوں نے فلاں کو قتل کر دیا، اسی طرح یہ مجھے بھی قتل کر دیں گے۔‘
عسکریت پسندوں کی قید میں رہنے کا احوال بیان کرتے ہوئے شہباز تاثیر نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے جب مجھے قید تنہائی میں رکھا، میں آج تک کسی کو یہ نہیں بتا سکا کہ قید تنہائی کتنی مشکل ہوتی ہے اور تنہائی انسان کو کتنا توڑ دیتی ہے۔
’تشدد تو ایک طرف ہوتا ہے لیکن یہ تشدد انتہائی انسانیت سوز ہوتا ہے، مجھ پر ہونے والے تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی لیک ہو گئی تھی، عسکریت پسندوں نے میری ویڈیو جان بوجھ کر لیک کی تھی۔ وہ اس کی قیمت جانتے تھے۔ یہ ویڈیو لوگ تو دیکھتے ہی ہیں لیکن انسان کی ماں کے لیے ایسی ویڈیو دیکھنا انتہائی مشکل کام ہے۔ ایک ماں اپنے بیٹے پر ایسا ظلم برداشت نہیں کر سکتی۔‘
شہباز تاثیر نے گفتگو میں مزید کہا کہ پاکستان میں بہت اچھے قوانین بھی موجود ہیں لیکن پاکستان میں بہت بڑے علاقے ایسے بھی ہیں جہاں عام لوگ نہیں جا سکتے۔ میڈیا کے رپورٹرز نہیں جا سکتے، عسکریت پسندوں نے پہلے دن مجھے لاہور کے علاقے ویلینشیا میں رکھا۔ انہوں نے مجھے 3 دن ڈرگز کے انجیکشن لگا کر بے ہوش رکھا۔ چوتھے دن انہوں نے مجھے برقعہ پہنایا۔ پاکستان میں چونکہ عورت کا احترام کیا جاتا ہے تو کسی ناکے پر کسی نے ان کو چیک نہیں کیا۔
عسکریت پسند شہباز تاثیر کو لاہور سے میر علی لے گئے
’لاہور کے بعد مجھے یہ لوگ میر علی، وزیرستان لے گئے۔ تقریبا اڑھائی سے 3 سال میں نے میر علی میں گزارے۔ پھر وہاں ضرب عضب آپریشن شروع ہوا۔ مجھے اغوا کرنے والے گروپ نے ہی کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا تھا جس کے بعد ضرب عضب شروع ہوا تھا۔ عسکریت پسند میری آنکھوں کے سامنے حملوں کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔ کراچی ایئرپورٹ پر حملے کی خبر میں ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان پر ڈالی گئی تو میرے اغوا کاروں نے میری والدہ کو فون کیا کہ آپ نے دیکھا کہ ازبکیوں نے کراچی ایئرپورٹ پر کیا کیا۔ یہ فون عسکریت پسندوں نے اس لیے کیا کہ یہ کنفیوژن دور ہو جائے کہ یہ حملہ کس نے کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ضرب عضب شروع ہونے کے بعد یہ لوگ مجھے وادی شوال لے گئے۔ میں نے 6 مہینے وادی شوال میں گزارے۔ شوال میں جب ملٹری آپریشن شروع ہوا تو یہ لوگ مجھے افغانستان لے گئے۔ میں نے 7دن پیدل افغانستان کا سفر کیا۔ عسکریت پسند افغانستان جا کر سجدے میں گر گئے کہ بڑی مشکل سے وہ جان بچا کر افغانستان پہنچے ہیں۔ وہاں دیکھنے والے ایک عسکریت پسند نے کہا کہ آپ لوگ سجدہ کیوں کر رہے ہیں یہاں افغانستان میں کتا بھی رات کو کھلے آسمان تلے نہیں سو سکتا۔‘
’میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں اپنے گھر سے اتنا دور افغانستان پہنچ جاؤں گا۔ میں نے عسکریت پسندوں کی قید میں رہتے ہوئے کبھی اللہ سے امید نہیں ہاری۔ نا امید ہونا اور کفر ایک ہی چیز ہے، مگر جب میں افغانستان پہنچ گیا تو تھوڑی مایوسی ہوئی کہ اب میں اتنا دور آ گیا ہوں، شاید واپس نہ جا سکوں۔ افغانستان میں 6 مہینے ازبکیوں کے ساتھ گزارے پھر 6 مہینے داعش کی قید میں گزارے۔‘
شہباز تاثیر نے بتایا کہ عسکریت پسندوں کے دل میں پاکستانی عوام کے لیے رحم نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان سب کو مارو، جہاں ملتے ہیں مارو۔ میری ویڈیو جو لیک کی گئی وہ مجھ پر ہونے والے تشدد کا صرف 5 فیصد ہیں۔ میں نے عسکریت پسندوں کی قید میں اللہ سے دعا کی کہ میرا دماغ نہ ٹوٹے۔ میری سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ میرا دماغ نہیں ٹوٹا اور صحیح کام کر رہا ہے۔ میں قید میں آیت الکرسی اور تین قُل پڑھتا تھا۔ یہ میری ہمیشہ ایک طاقت تھی۔‘
شہباز تاثیرعسکریت پسندوں کی قید سے واپس کیسے آئے؟
شہباز تاثیر نے بتایا کہ ’جب میری واپسی کا سفر شروع ہوا۔ میں ایک اور گروپ کے ساتھ آ گیا۔ میں نے ایک کہانی بنائی کہ میں خود ایک جہادی ہوں، نصرانی ہوتا تھا، مسلمان بنا، فیملی ابھی بھی نصرانیوں میں ہے۔ میں نے پوری ایک سنڈریلا کہانی بنا دی۔ افغانستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ میں بائیکس پر بیٹھ کے پھرتا رہا، پھر میں عسکریت پسندوں کے ساتھ افغانستان سے کوئٹہ آیا۔ میری بڑی بڑی داڑھی تھی، لمبے لمبے بال تھے، میں نے پگڑی بھی پہنی ہوئی تھیَ‘
انہوں نے بتایا کہ7 مارچ 2016ء میں وہ فجر کے وقت اٹھے، کچھ لوگ (جو انہیں لے کے جا رہے تھے) ان کے پاس آئے اور مجھ سے پوچھا کہ آپ کے پاس مہاجر کارڈ ہے؟ میں نے جواب دیا: نہیں، میرے جواب پر انہوں نے کہا کہ اس طرح تو ہم آپ کی وجہ سے پکڑے جائیں گے، آپ اپنے راستے پر یہاں سے چلے جائیں، چاہے جیسے بھی آپ جائیں،اب ہمارا راستہ الگ ہے۔
’میں وہاں سے نکلا ۔ میرے پاس کوئی ٹیکنالوجی نہیں تھی، میں نے ایک پی سی او والے سے کہا کہ کیا مجھے پے فون مل سکتا ہے تو اس نے مجھے حیرت سے کہا کہ پے فون کو پاکستان میں ختم ہوئے 4 سال ہو گئے ہیں۔ پھر میں نے کہا موبائل دے دیں۔ ایک آدمی نے مجھے فون دیا. میں نے سائیڈ پر جا کر والدہ کو فون کیا۔ ان کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں نے والدہ سے کہا کہ کسی کو بھیجیں، میں اس جگہ پر ہوں، مجھے لے جائے۔‘
میری والدہ نے سمجھا کہ میرے بیٹے نے پچھلے ایک سال سے انہیں فون نہیں کیا اس لیے یہ بھی ایک جال ہو سکتا ہے۔ میری والدہ نے ایم آئی کے ساتھ ، آئی ایس آئی کے ساتھ، کورکمانڈ پشاور اور ساری ایجنسیز کے ساتھ مل کر اتنا بڑا منصوبہ بنایا کہ میں جہاں کھڑا ہوا تھا، ہر طرف سے کمانڈوز، فوجی گزر رہے تھے۔ میں انہیں بتا رہا تھا کہ میں شہباز تاثیر ہوں لیکن وہ مجھے نظر انداز کر رہے تھے۔ میں نے ایک کرنل کا ہاتھ پکڑا اور ان کو بتایا کہ میرا نام شہبازتاثیر ہے اور آپ میرے لیے یہاں آئے ہیں، انہوں نے مجھے وہاں سے اٹھایا اور مجھے گھر پہنچایا۔
عسکریت پسندوں کی قید میں رہتے ہوئے کس نے شہباز تاثیر پر رحم کیا؟
شہباز تاثیر نے بتایا کہ قید کے دوران عسکریت پسندوں کی عورتوں اور بچوں نے مجھ پر بڑا رحم کیا۔ ان کی خواتین کو کبھی میں نے دیکھا نہیں کیوں کہ وہ پردے کے پیچھے رہتی ہیں لیکن جب مجھ پر تشدد کیا جا رہا تھا تو میرے اغوا کار کی ساس نے پردے سے نکل کرمجھے بچانے کی کوشش کی۔