رضوانہ تشدد کیس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی

جمعہ 4 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد پولیس نے سول جج عاصم حفیظ کے گھر 14 سالہ ملازمہ رضوانہ پرمبینہ تشدد کی تحقیقات کے لیے خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی ) تشکیل دے دی ہے۔

جمعہ کو اسلام آباد پولیس کے اے آئی جی آپریشنز کی جانب سے جاری ایک نوٹیفکیشن کے مطابق ’ہمک‘ پولیس اسٹیشن اسلام آباد میں دائرفرسٹ انوسٹی گیشن رپورٹ ( ایف آئی آر) نمبر 154/23 پر 5 رکنی خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔ تحقیقاتی ٹیم 14 سالہ رضوانہ پر ہونے والے مبینہ تشدد کی تحقیقات کرے گی۔

جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے جاری نوٹیفیکیشن کا عکس

خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے 5 ممبران میں 3 پولیس آفسران، ایک  انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ایک انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کا ممبر شامل ہو گا۔

اسلام آباد پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) آپریشنزشہزاد احمد بخاری کو کمیٹی کا کنونیئر جب کہ سینیئر سپرینٹنڈنٹ آف پولیس اسلام آباد (ایس ایس پی) رخسار مہدی کوکمیٹی کا سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے۔

نوٹیفکیشن میں وزارت داخلہ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمائندے جو گریڈ 19 کے آفیسر ہوں کو نامزد کرے۔

سرگودھا سے تعلق رکھنے والی رضوانہ کو 24 جولائی کو تشویشناک حالت میں لاہور جنرل اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ اسلام آباد میں ایک سول جج کی اہلیہ نے مبینہ طور پر سونے کے زیورات چوری کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

لڑکی کے میڈیکل لیگل سرٹیفکیٹ (ایم ایل سی) کے مطابق اس کے سر ، ماتھے، بھوؤں کے اوپر دائیں جانب سوجن، اوپری ہونٹوں پر بھی سوجن، دائیں جانب اوپری ہونٹ کے نیچے زخم، ناک سے خون بہہ رہا تھا۔

رپورٹ کے مطابق رضوانہ کے سر کے بائیں جانب بھی زخم تھا، نچلی ٹانگ پر متعدد چوٹیں، دائیں بازو پر فریکچر تھا۔ بائیں اور دائیں پلکوں میں شدید سوجن تھی، کھوپڑی کے دائیں طرف سخت ترین چوٹ، پیٹھ پر ایک بڑا زخم ، پیٹھ پر دیگر کئی چوٹیں اور گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔

اسلام آباد پولیس نے کئی دن بعد 26 جولائی کو اس معاملے میں ایف آئی آر درج کی تھی۔ ابتدائی طور پر پولیس نے ایف آئی آر میں جسمانی تشدد کا ذکر کیے بغیر جج کی بیوی کو مجرمانہ دھمکیاں اور غلط طریقے سے قید میں رکھنے کا مقدمہ درج کیا تھا۔ بعد میں اس میں اقدام قتل سمیت 8 اور دفعات شامل کی گئیں۔

رواں ہفتے کے اوائل میں اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے ملزمہ سومیہ عاصم کی 7 اگست تک ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی تھی۔

جمعہ کو جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن میں، جس کی ایک کاپی وی نیوز کے پاس بھی موجود ہے، کیپیٹل پولیس نے کہا کہ اس نے ’مکمل میرٹ‘ پر تشدد کیس کی تحقیقات کے لئے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی ہے۔

تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد شہزاد احمد بخاری، محکمہ انسداد دہشت گردی کے ایس ایس پی یاسر آفریدی، ایس ایس پی انویسٹی گیشن رخسار مہدی اور انٹر سروسز انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو کا ایک ایک نمائندہ کر رہا ہے۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی حکم نامے کے علاوہ جے آئی ٹی کے کنونئر اسلام آباد پولیس کے کسی اور رکن کا انتخاب کر سکتے ہیں تاکہ پیشہ ورانہ بنیادوں پر بہتر شواہد جمع کرنے میں ٹیم کی مدد کی جا سکے۔

حکومت نے واقعے پر تشویش کا اظہار کر دیا

دریں اثنا جمعہ کو سینیٹ کے اجلاس کے دوران حکومت نے اس واقعے پر تشویش کا اظہار کیا اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا اور ایوان پر زور دیا کہ وہ بچوں پر تشدد کے خلاف قانون سازی کرے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا کہ یہ مسئلہ چھوٹا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ہر کوئی جانتا ہے کہ لڑکی سول جج کی طاقت کا شکار بن گئی تھی۔ آج وہ انتہائی نگہداشت کے یونٹ (آئی سی یو) میں ہے اور اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ‘کوئی اپنے اختیارات کا غیر منصفانہ استعمال کر رہا ہو’ اور ایسے میں عدالتوں کی جانب سے مشتبہ شخص کو دی جانے والی ‘راحت’ قابل افسوس ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ منصفانہ ہے۔ رضوانہ کو انصاف کیوں نہیں مل رہا؟ عدالتیں اس کا نوٹس کیوں نہیں لے رہی ہیں؟

شیری رحمٰن نے مزید کہا کہ یہ واقعہ انتہائی تشویشناک ہے اور ہمیں یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہماری ناک کے نیچے کیسے ہوا۔

بچوں کے تحفظ کے لیے قوانین کا مسودہ تیار کیا گیاہے، اعظم تارڑ

دریں اثنا وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بچوں کے تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر کچھ قوانین کا مسودہ تیار کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میرے خیال میں ہمیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے’، انہوں نے مزید کہا کہ حکومت جلد ہی سینیٹ میں کچھ مسودہ بل پیش کرے گی۔

ہمک پولیس اسٹیشن میں دائر ایف آئی آر کے مندرجات

لڑکی کے والد کی شکایت کے جواب میں ہمک پولیس اسٹیشن میں معاملہ درج کیا گیا تھا، جو پیشے سے مزدور ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق انہوں نے اپنی بیٹی کو زرتاج ہاؤسنگ سوسائٹی میں جج کے گھر 10 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر بھیجا۔

23 جولائی کو وہ اپنی بیوی اور دیور کے ساتھ اپنی بیٹی سے ملنے جج کے گھر آئے اور اسے ایک کمرے میں زخمی اور روتے ہوئے پایا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ان کے سر پر انفیکشن کے زخموں کے علاوہ چہرے، دونوں بازوؤں اور ٹانگوں پر زخم پائے گئے، اس کا دانت بھی ٹوٹا ہوا اور ہونٹوں اور آنکھوں دونوں پر گہرے زخم بھی ہیں۔

اس کی پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی پائی گئیں اور اس کی پیٹھ پربھی زخم پائے گئے۔ اس کے گلے میں گلا گھونٹنے کے نشانات بھی پائے گئے تھے۔

جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ جج کی بیوی اسے روزانہ لاٹھیوں اور چمچوں سے تشدد کا نشانہ بناتی تھی اور رات کا کھانا فراہم نہیں کرتی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ لڑکی کو گھر پہنچنے کے بعد سے ایک کمرے میں حراست میں رکھا گیا تھا۔ بعد ازاں اہل خانہ اسے سرگودھا کے ڈی ایچ کیو ہسپتال لے گئے جہاں بچی کی حالت بگڑگئی جس کے بعد اسے لاہور ریفر کر دیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp