اسلام آباد کی سیشن عدالت نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ توشہ خانہ میں سزا کے بعد عمران خان 5 سال کے لیے نااہل بھی ہو گئے ہیں، اگر فیصلہ برقرار رہتا ہے تو وہ آئندہ عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔
مزید پڑھیں
’توشہ خانہ کیس میں قید اور جرمانے کے فیصلے کے بعد عمران خان کا مستقبل کیا ہو گا اور ان کے پاس کون سا قانونی راستہ موجود ہے؟ وی نیوز نے اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے‘۔
عمران خان کےخلاف فیصلہ بہت کمزور، جلد ختم ہو جائے گا، بیرسٹر گوہر علی
عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر علی خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیشن عدالت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کے لیے ہمیں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا پاور آف اٹارنی چاہیے۔ جب انہیں جیل میں لایا جائے گا تو ہم ان سے پاور آف اٹارنی لیں گے، پھر ہمیں عدالتی فیصلے کی مصدقہ کاپی بھی چاہیے جس پر ہم توشہ خانہ فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے، لیکن یہ فیصلہ اتنا کمزور ہے کہ جلد ختم ہو جائے گا۔
بیرسٹر گوہر علی نے عدالتی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بہت دکھ ہوا ہے۔ اس فیصلے میں چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ ناانصافی ہوئی، ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دیا گیا، ہمارا حق دفاع ختم کیا گیا اور اس مقدمے کو دائر کرنے میں قانونی سقم تھا جس پر ہماری درخواست کو نہیں سنا گیا اور ہمیں دفاع کا پورا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جن الزامات کے تحت یہ مقدمہ دائر کیا گیا اور جو فیصلہ ہے وہ بہت کمزور ہے اور جلد ختم ہو جائے گا۔
فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جائے گا، شعیب شاہین ایڈووکیٹ
عمران خان کے ایک اور وکیل شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس مقدمے پر پیش رفت کے لیے ہم مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کریں گے۔ اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔ ہم نے پہلے ہی ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔
عمران خان کو کبھی مائنس نہیں کیا جا سکتا، سینیٹر بابر اعوان
عمران خان کے ایک اور وکیل اور پی ٹی آئی سینیٹر بابر اعوان نے توشہ خانہ فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فرمائشی مقدمہ، فرضی شہادتیں، متعصب جج، عدالتی چھٹیوں کے دوران پورے ملک میں ہونے والا سنگل ٹرائل، جج کی جانب سے دفاع میں پیش کی جانے والی شہادتیں ریکارڈ کیے جانے سے قبل مسترد کرنے کا عمل، یہ ساری چیزیں اس مقدمے کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنے کے لیے کافی ہیں، اپیل میں یہ مقدمہ ٹھہر ہی نہیں سکتا، عمران تھا، عمران ہے اور عمران رہے گا، اور اسے کبھی مائنس نہیں کیا جا سکتا۔
عمران خان کی گرفتاری دباؤ اور بدنیتی پر مبنی ہے، اکرام چوہدری
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرام چوہدری نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارا معاملہ دباؤ اور بدنیتی پر مبنی ہے اور اس مقدمے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں۔ سارا معاملہ صرف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو گرفتار اور جیل بھجوانے کے لیے تخلیق کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے مقدمات میں ہائی کورٹ میں عمومی طور پر سزا جلد معطل ہو جاتی ہے۔ اکرام چوہدری نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جج ہمایوں دلاور کا تعصب اور ناانصافی سامنے نظر آرہی تھی پھر بھی ہائی کورٹ نے مقدمہ دوسری عدالت منتقل کرنے کی بجائے اسے واپس بھجوا دیا۔ الیکشن ایکٹ کے تحت چار مہینے تک گوشواروں کے بارے میں شکایت درج کرائی جا سکتی ہے لیکن یہاں دو سال بعد کرائی گئی، اس طرح قانون کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی۔