پاکستان کا قومی ترانہ کیسے تخلیق ہوا؟

منگل 8 اگست 2023
author image

ایس اے رحمان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کا قومی ترانہ ممتاز شاعر حفیظ جالندھری نے لکھا اور اس کی دھن مشہور موسیقار احمد غلام علی چھاگلہ نے مرتب کی۔ قومی ترانے کی باقاعدہ منظوری 4 اگست 1954ء کو اس وقت کی کابینہ نے دی اور یہ پہلی مرتبہ 13 اگست 1954ء کو ریڈیو پاکستان سے حفیظ جالندھری کی آواز میں نشر ہوا۔پاکستان کے قومی ترانے کی تخلیق اور اس کی منظوری میں سات برس لگے۔ اس تاخیر کی وجوہات اور اس دوران پیش آئے حالات و واقعات نہایت دلچسپ اور اہمیت کے حامل ہیں۔

قومی ترانے کا خیال سب سے پہلےکسے آیا؟

یوں تو کئی تحریروں میں بیان ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سکولوں میں ترانے کے لئے علامہ اقبال کی نظمیں “لب پہ آتی ہے دعا” اور “چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا، مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا“ پڑھی جاتی تھیں۔ مگر ممتاز شاعر و محقق پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا لکھتے ہیں کہ قومی ترانے کا خیال سب سے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو آیا۔ ایسا ہی تذکرہ ہمیں شاعر و نقاد جمیل یوسف کی کتاب “حفیظ جالندھری” میں ملتا ہے  جسے مقتدرہ قومی زبان پاکستان نے 2011ء میں شائع کیا تھا۔ انہوں نے تاریخی حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ قومی ترانے کا خیال سب سے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو ہی آیا اور انہوں نے اس کا ذکر سب سے پہلے حفیظ جالندھری سے کیا۔ اس ملاقات سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ قومی ترانہ کیسا ہوتا ہے یہ حفیظ جالندھری سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا تھا۔ جمیل یوسف لکھتے ہیں:

پاکستان کے قومی ترانے کے خالق کے ذہن میں اپنے وطن کے قومی ترانے کا کیا تصور تھا خود انہی کے الفاظ میں ملاحظہ ہو:

“دسمبر 1947 ء میں مرحوم لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان راولپنڈی تشریف لائے تھے۔ مجھ سے قومی ترانے پر کچھ بات ہوئی۔ میں نے عرض کیا کہ قومی ترانہ نہ تو خالی شعر و شاعری ہے اور نہ عام بازاری موسیقی۔ یہ ملت کو زندگی دینے والی روح کا اظہار الفاظ میں ہوتا ہے۔ الفاظ مناسب و موزوں اعتدال کے ساتھ مرتب ہوکر وہ نغمہء حیات بنتے ہیں جو اس قوم و ملت کا مقصود ہے۔ الفاظ کی یہ موزونیت دھن کہلاتی ہے۔ یہ دھن سازوں سے ہم آہنگ ہو کر ہر فرد میں ملی زندگی کی امنگ قائم رکھتی اور پیدا کرتی جاتی ہے۔ دھن اور الفاظ دونوں کو بیک وقت فوجی اور شہری سازوں کی آواز سے ہم رنگ و ہم آہنگ منصہء شہود پر لانا ضروری ہے۔ شاعر کو حسن صوت یعنی الفاظ کی اپنی دلکش موسیقی سے معمور ہونا چاہیے اور شاعر کا کن رس ہونا اور ساتھ ہی دل و جان کے ساتھ ملت کی روح سے ہم آہنگ ہونا لازم ہے۔ شاعر کی یہ تینوں صلاحیتیں اور تخلیقی قوتیں جب تک بروئے کار نہ آئیں گی، قومی ترانہ نہ بن سکے گا۔”

لیاقت علی خان نے فرمایا: آپ کے سوا دوسرا کون ہے؟

میں نے عرض کیا: اگر مجھ سے یہ خدمت طلب کرتے ہیں تو مجھے گاہے گاہے آرکسٹرا کے چند سازندوں اور ایک فوجی بینڈ ماسٹر کی ضرورت بھی ہو گی۔

میری اس وضاحت پر جناب لیاقت نے مسرت کا اظہار کیا اور وعدہ کیا کہ کراچی پہنچتے ہی ریڈیو پاکستان کو حکم دے دیا جائے گا۔”

تاہم ایسا نہیں ہوا۔ 1948ء کے اوائل میں کنٹرولر آف براڈ کاسٹنگ ذوالفقارعلی بخاری نے وزارت داخلہ کو ایک نوٹ کے ذریعے تجویز پیش کی کہ سورۃ فاتحہ کو قومی ترانے کے طور پر منتخب کیا جائے۔ فروری 1948ء میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں ذوالفقار علی بخاری کی تجویز کو مسترد کر دیا اور فیصلہ کیا کہ پاکستان کے نامور شعراء کو قومی ترانہ لکھنے کی دعوت دی جائے۔ اس کے لئے ایک کمیٹی بنائی جائے جو موصول ہونے والے ترانوں کا جائزہ لے کر ایک ترانہ منتخب کرے اور اسے موسیقی سے ہم آہنگ کرنے کے لئے تجویز پیش کرے۔

پہلے قومی ترانے کی دھن تخلیق کی گئی:

اسی ماہ وزیراعظم لیاقت علی خان کے زیر صدارت ہونے والے کابینہ اجلاس میں بیان کردہ سفارشات سے اتفاق کیا گیا مگر ساتھ ہی ہدایت جاری کی گئی پہلے ترانے کی دھن تیار کی جائے ۔ بعد ازاں ایسا نغمہ منتخب کیا جائے جو اس دھن کے ساتھ ہم آہنگی اور مطابقت رکھتا ہو اور اس کام کی نگرانی کے لئے ایک کمیٹی بنائی جائے۔

کابینہ اجلاس کی کارروائی کی خبر جب اخبارات میں آئی تو جنوبی افریقہ میں بسنے والے ایک مسلمان اے آر غنی نے حکومت پاکستان کو پیشکش کی کہ وہ قومی ترانا لکھنے اور اس کی موسیقی مرتب کرنے والے کو پانچ پانچ ہزار روپے انعام دیں گے۔ ان کی اس پیشکش کو حکومت پاکستان نے قبول کیا اور 2 جون 1948ء کو اشتہار شائع کیا کہ دس ہزار روپیہ اس شخص کو انعام دیا جائے گا جو قومی ترانے کے الفاظ اور دھن دونوں تیار کرے۔ لیکن اگر کوئی شاعر محض الفاظ میں قومی ترانہ تخلیق کرے اور اسے منظور کر لیا جائے لیکن اس کی دھن کوئی دسرا موسیقار بنائے تو ان دونوں کو پانچ پانچ ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔

دسمبر 1948ء میں حکومت پاکستان نے وفاقی وزیر سردار عبدالرب نشتر کی صدارت میں ایک نو رکنی قومی ترانہ کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی کے دیگر ارکان میں پیرزادہ عبدالستار، ایس ایم اکرم، پروفیسر راج کمار چکراورتی، سید ذوالفقار علی بخاری، اے ڈی اظہر، چوہدری نزیر احمد خان، جسیم الدین اور حفیظ جالندھری شامل تھے۔

قومی ترانہ کمیٹی

حکومت کو دھن اور شاعری کی صورت ترانے موصول ہونا شروع ہوچکے تھے۔ قومی ترانہ کمیٹی نے جولائی 1949ء میں اپنے منعقدہ اجلاس میں ان دھنوں اور نظموں کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ دھن اور شاعری کے انتخاب کے لئے دو الگ الگ ذیلی کمیٹیاں بنائی جائیں۔ ترانے کی دھن کے لئے بنائی گئی کمیٹی نے موصول ہونے والی کئی دھنوں کو سنا مگر کسی کا انتخاب نہ کیا۔ اس کمیٹی کے ایک رکن موسیقار احمد غلام علی چھاگلہ بھی تھے جنہوں نے کمیٹی کی درخواست پر شب و روز محنت کر کے ایک دھن تیار کی۔ کمیٹی کو ان کی مرتب کردہ دھن پسند آگئی اور اگست 1949ء میں ان کی دھن کی عارضی طور پر منظوری کا اعلان کیا گیا۔ ان کی دھن کو ریڈیو پاکستان میں بہرام سہراب رستم جی نے پیانو پر ریکارڈ کروایا ۔ اس کا دورانیہ ایک منٹ 20 سیکنڈ تھا اور اسے بجانے میں 21 آلاتِ موسیقی اور 38 ساز استعمال ہوئے تھے۔ اس دھن کو پہلی مرتبہ یکم مارچ 1950ء کو پاکستان میں ایران کے سربراہ مملکت کی آمد پر بجایا گیا تھا۔

مئی 1950ء میں وزیراعظم پاکستان کے دورہ امریکہ کے دوران چھاگلہ کی دھن پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر بجائی گئی۔ بعد ازاں باقاعدہ منظوری تک یہی دُھن پاکستان کے اندر اور باہر سرکاری تقریبات میں بجائی گئی۔ ترانہ لکھوانے کے لئے کمیٹی نے شاعروں کو اذن عام دیا کہ اس دھن پر  ترانے کے بول بٹھاؤ۔ اس کے لئے ریڈیو پاکستان پر ترانے کی دھن دن میں کئی مرتبہ نشر کی جاتی۔ شعراء کو گراموفون کے ریکارڈ بھی بھیجے گئے۔

حفیظ جالندھری کے لکھے گئے ترانے کا انتخاب

کمیٹی کو 723 ترانے موصول ہوئے جن کا جائزہ لینے کے بعد حفیظ جالندھری، حکیم احمد شجاع اور ذوالفقار علی بخاری کے ترانوں کا انتخاب کیا گیا۔ 4 اگست1954 کو پاکستان کی مرکزی کابینہ نے حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے ترانے کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کیا۔ 13 اگست 1954 کو یہ ترانہ پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔ بعد میں اس ترانے کو اس وقت کے گیارہ معروف گلوکاروں نے گایا جن میں احمد رشدی، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، نجم آرا، نسیمہ شاہین، زوار حسین، اختر عبّاس، غلام دستگیر، انور ظہیر اور اختر وارث علی شامل ہیں۔

ترانے کے الفاظ کے انتخاب کے دوران جب ذوالفقار بخاری کے نغمے کو مسترد کیا گیا تو وہ نالاں ہوئے۔ البتہ حفیظ جالدھری کا ترانہ جب منتخب ہوگیا تو ملک بھر سے مصنفین اور شعراء ان کی مخالفت میں سامنے آگئے۔ ایڈیٹر ساقی، شاہد احمد دہلوی اس حوالے سے لکھتے ہیں: “اس کامیابی کا اعلان ہونا تھا کہ یار لوگ کوئلوں پر لوٹ گئے اور تو اور حفیظ صاحب کے قریب ترین دوست و قدردان عبدالمجید سالک اور مجید لاہوری جیسے بھی ہتھے سے اکھڑ گئے اور نہ صرف اس ترانے کی مخالفت ان دوستوں نے کی بلکہ اس کا مذاق بھی اڑایا اور اس کی پیروڈیاں بھی لکھیں۔ ان کے ایک دوست نے اسی بحر اور اسی دھن میں ایک فحش قسم کی پیروڈی لکھی جسے وہ مزے لے لے کر حفیظ صاحب کی موجودگی میں دوستوں کو سنایا کرتا تھا۔”

اپنے مخالفین کے لئے حفیظ صاحب نے کیا سچ کہا ہے:

خبثِ درُوں دکھا دیا ہر دہن غلیظ نے

کچھ نہ کہا حفیظ نے، ہنس دیا، مسکرا دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یاروں کی برہمی پہ ہنسی آگئی حفیظ

یہ مجھ سے ایک اور برٰ بات ہو گئی

دیکھا جو کھا کے تیر، کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

 

جمیل یوسف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، “پاکستان کے قومی ترانے پر بعض ناسمجھ اور اردو سے نابلد لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ترانہ پاکستان قومی زبان میں نہیں ہے۔ سوائے لفظ “کا” کے باقی سارے الفاظ فارسی کے ہیں۔ اس سے زیادہ جاہلانہ اعتراض اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اردو کا کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں۔ اردو کی کسی کتاب، نظم و نثر کی ورق گردانی کر لیں قومی ترانے کے سارے الفاظ بار بار اور ہر جگہ نظر آئیں گے۔ اردو مختلف زبانوں کے میل جول سے ہی تو بنی ہے۔ اس کے سارے الفاظ دوسری زبانوں سے مستعار ہیں۔ قومی ترانے کی ایک اضافی خوبی یہ ہے کہ یہ خالص اردو زبان میں ہے۔مگر اسے افغانستان اور ایران والے بھی جو پاکستان کے پڑوسی ملک ہیں پوری طرح سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ترانہ ان تینون ملکوں میں اتحاد و یگانگت کے جذبات ابھارتا ہے۔”

کیا پہلا قومی ترانہ جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا؟

پاکستان کے قومی ترانے کی بات ہو تو اس ایک شوشے کا ذکر بے معنی مگر لازم ہے جو بھارتی صحافی لوپوری نے 2004ء میں چھوڑا تھا۔ موصوف نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا۔ بھارتی صحافی کے اس دعوے پر چند پاکستانی ارسطوؤں کو گویا اپنی اہمیت جتانے اور قسمت جگانے کا موقع مل گیا۔ تاہم بھارتی میڈیا کے ساتھ ساتھ اس قماش کے تمام لوگوں کو مؤرخ و محقق ڈاکٹر صفدر محمود، عقیل عباس جعفری، یونس کمال لودھی اور ڈاکٹر زکریا اپنی اپنی تحریروں، کتابوں اور گفتگو میں شامل ثبوتوں اور دلائل کی بنیاد پر دھول چٹا چکے ہیں۔ اس موضوع پر پاکستان کے تقریباً تمام اخبارات بھی مضامین شائع کر چکے ہیں۔ ٹیلی وژن پر بھی اس حوالے سے پروگرام نشر ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو یہ علم بھی ہے اور فخر بھی کہ پاکستان کا ایک ہی قومی ترانہ ہے جس کے بول حفیظ جالندھری نے لکھے اور اس کی لازوال دھن احمد غلام علی چھاگلہ نے مرتب کی۔

قومی ترانے کی دھن کے خالق احمد غلام علی چھاگلہ اپنی دھن کی منظوری سے قبل ہی خالق حقیقی سے جاملے۔ ان اکا انتقال 5 فروری 1953ء کو ہوا۔  1996ء میں حکومت پاکستان نے انہیں ان کی خدمات کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈ دینے کا اعلان کیا۔

جبکہ قومی ترانے کے شاعر حفیظ جالندھری کا انتقال 21 دسمبر 1982 کو 82 سال کی عمر میں ہوا اور ان کا مقبرہ گریٹر اقبال پارک، لاہور میں بنایا گیا۔ ان ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پرانہیں تمغہ حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا۔

حکومت پاکستان 14 اگست 2022ء کو دور جدید کے تقاضوں کے مطابق قومی ترانے کی نئی ریکارڈنگ جاری کر چکی ہے۔ قومی ترانے کی ری ریکارڈنگ میں پاک فوج کے بینڈز کے 48 موسیقاروں نے حصہ لیا جنہوں نے موسیقی کے آلات کو مہارت سے بجایا جبکہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے30 اور تمام صوبوں، علاقوں اور عقائد کی نمائندگی کرنے والے 125 سے زیادہ گلوکار اس عمل میں شامل رہے۔ قومی ترانے کے نئے ورژن کی جدید انداز میں ویڈیو بھی تیار کی گئی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp