ہماری دنیا اتنی جدید اور حسین اس سے پہلے نہ تھی۔ غالباً جو بھی دور چل رہا ہوتا ہے وہ اس وقت کا حسین اور جدید ترین دور ہوتا ہے۔ ہم انسانوں کی ایک فطرت ہے، ہمیں گزرا وقت بہت سہانا، اچھا اور پیارا لگتا ہے اور ہم جس حاضر وقت میں جی رہے ہوتے ہیں اس کے برعکس ماضی کی ہوائیں ہمیں ٹھنڈی اور یادیں میٹھی لگتی ہیں۔ یہ ہماری نیچر کا حصہ ہے کہ جوانی میں بچپن، بڑھاپے میں جوانی اور بستر مرگ پر پوری زندگی ہی اچھی لگتی ہے۔
کہتے ہیں اگر انسان کو ٹائم ٹریول یعنی گزرے ہوئے وقت میں جانے کا موقع ملے تو ہر کوئی اپنے بچپن میں جانا چاہے گا لیکن میرا معاملہ ہر کسی سے بالکل اُلٹ ہے۔ مجھے نیا زمانہ پسند ہے، مجھے بدلتی رُتیں پسند ہیں۔ مجھے میرا ماضی اور ماضی کی چیزیں پسند نہیں ہیں۔ مجھے نئے دور کی سہولیات، ٹیکنالوجی، ٹرینڈز، خیالات اور اطوار پسند ہیں۔
مثال لے لیجیے، آج سے 23،24 برس پہلے ہمارے محلے میں صرف ایک گھر میں ٹیلی فون ہوتا تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب بھی ابو یا امی کو گاؤں کسی سے بات کرنا ہوتی تھی تو وہ اُن کے گھر جاتے اور پھر مختصر سی ٹیلی فون کال کرتے اور اُس کے عوض چار سے پانچ مرتبہ اُن کا شکریہ ادا کرتے۔ یہ بات اب سب کو بھلے وقتوں کی یاد دلاتی ہے لیکن مجھے یہ محتاجی اور ٹیکنالوجی تک بوجہ مڈل کلاس عدم رسائی کی یاد دلاتی ہے۔
میں اُس وقت پر اِس وقت کو فوقیت دوں گا کیونکہ میرے والدین کے پاس سمارٹ فون ہیں جن پر واٹس ایپ کے ماہانہ پیکج، وائس کال کے لا تعداد منٹ اور گھر کے وائی فائی کی سہولت ہے۔ وہ جس سے جب دل چاہے گھنٹوں بات کر سکتے ہیں اور سب سے اہم بات کسی کے گھر جانے کی محتاجی بھی نہیں ہے۔
اسی ٹیکنالوجی پر ہی تھوڑی بات کرلیتے ہیں۔ آج بات ای میل سے بھی آگے نکل کر وٹس ایپ کے پیغامات پر پہنچ چکی ہے۔ ہمارے گھر پر 2000 کی دہائی کے اوائل میں رشتہ داروں کے خط آتے تھے۔ اُس خط کو کھولنے اور پڑھنے کی خوشی اپنی جگہ شاندار ہی ہوتی تھی مگر جب اُس کا جواب بھیجا جاتا تو وہ باتیں بہت پرانی ہو چکی ہوتی تھیں۔ اس کے برعکس آج صرف دو مرتبہ اُنگلی سے کِلک کرنے پر مطلوبہ شخص تک رسائی ویڈیو میں ہوجاتی ہے۔
کہیں جائیں، اپنے گھر والوں کو پل پل کی خبریں ویڈیو سمیت سٹیٹس اور سٹوری کی صورت میں دیتے جائیں۔ خود بتائیں گرمی میں بینک کے باہر لمبی قطار میں بل جمع کروانے کے لیے گھنٹوں رُکنے کی بجائے گھر بیٹھے موبائل ایپ سے ہی ہزاروں روپے کا بل صرف انگلیوں کے اشارے سے جمع کروانا اس ٹیکنالوجی کی کتنی بڑی مہربانی ہے۔ لہذا جب میں گھر بیٹھے ہی بل جمع کروا سکتا ہوں تو پھر بینک میں باہر خوار ہونے کی یادوں کو کیوں دل سے لگاؤں۔
آج سے دو دہائیاں قبل ہر مڈل کلاس گھر کی طرح ہمارے پاس بھی اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ جو سہولیات آج ہمارے گھر میں ہیں وہ آج سے 20 برس قبل ہم صرف ٹی وی یا دکانوں میں ہی دیکھ سکتے تھے۔ مثال لے لیجیئے، ہمارے گھر صرف ایک رُوم کولر ہوتا تھا جس کے آگے ہم سب سوتے تھے۔ رُوم کولر کے آگے لیٹنے والا ایک بندہ اگر کروٹ بدلتا تو دوسروں پر ہوا نہ جاتی اور پھر ایک عجیب سا شور مچتا کہ سیدھے لیٹ جاؤ تاکہ سب پر ٹھنڈی ہوا آئے۔
وقت گزر گیا، اور ہمارے گھر اے سی آگئے۔ سب سکون سے سوتے ہیں، کسی کو کسی کی کروٹ بدلتے پر اعتراض نہیں ہوتا۔ میں اسی وجہ سے اس دور میں زیادہ پر سکون محسوس کرتا ہوں کہ سہولیات کی بھرمار ہے اور زندگی بہت آسان ہے۔
سکول کے زمانے کی بات لے لیں، شرط لگا کر کہنے کو تیار ہوں کہ 90 فیصد لوگوں کو اپنے سکول کا وقت یاد آتا ہے اور وہ واپس اُس دور میں جانا چاہتے ہیں مگر میں اُن 10 فیصد لوگوں میں ہوں گا جنہیں سکول نہ یاد آتا ہے نہ واپس جانے کا دل کرتا ہے۔ مطلب میں صبح 6:30 بجے اٹھنے پھر تیار ہونے پھر سکول جانے، وہاں پورا دن اساتذہ کی سختی برداشت کرنے پھر واپس آ کر تین تین گھنٹے ہوم وَرک کرنے اور اسے یاد کرنے اور پھر اسے صبح سنانے کے خوف کے ساتھ سونے کو بالکل بھی مِس نہیں کرتا۔
میرے اندر ناسٹیلجیا کی یہ رَگ ہے ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو اِس پر بالکل بھی نہیں پھڑکتی۔ آج میں نوکری پیشہ ہوں، آزاد ہوں، کہیں بھی جا سکتا ہوں، پڑھائی کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، پیپر دینے کی کوئی فکر نہیں ہے اور ہوم وَرک کرنے کا کوئی بوجھ نہیں ہے تو میں کیوں اُس وقت کو یاد کروں جب یہ سب میرے پاس نہیں تھا اور میں اِس کی ہی تمنا کرتا تھا۔
ہم انسانوں کی عادت ہے، ہمارے پاس جو چیز نہیں ہوتی، ہم اسے حاصل کرنے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں مگر جیسے ہی وہ حاصل ہو جاتی ہے، ہم پھر اس کے بغیر گزرے دنوں کی یادیں یاد کرتے ہیں اور ناسٹیلجیا میں ڈوبے رہتے ہیں اور وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتے۔ جو وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتے وہ بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور پھر جب تبدیل ہونا چاہتے ہیں تو وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔