گزشتہ ماہ میرے ایک ساتھی سرکاری نوکری سے ریٹائر ہو گئے۔ یہ نوکری ان کے مزاج کے مطابق نہیں تھی بلکہ ان پر ایسے ہی مسلط تھی جیسے ہمارے معاشروں میں انسانوں پر ان کی منشا کے بنا بہت سی چیزیں مسلط کر دی جاتی ہیں۔ وہ ریڈیو کے اچھے آر جے تھے۔ ہزاروں شعر ہر موقع کی مناسبت سے انہیں یاد ہیں۔ گنگناتے بہت اچھا ہیں۔ جب 13 سال پہلے انہیں پہلی بار دیکھا تھا تو ان کے جسم کی لچک دیکھ کر اندازہ ہوا تھا کہ اگر ڈانسر ہوتے تو بھاو بہت اچھے سے بتاتے۔
ایک دن حوصلہ کر کے پوچھا کہ آپ کو ڈانس کا کوئی شوق ہے تو کہنے لگے شوق نہیں جنون تھا اور’میں نے کیا بھی بہت‘ پھر فیملی کی نا پسندیدگی کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ ریٹائرمنٹ سے کچھ دن پہلے میں نے کہا کہ اگر وہ ڈانس اکیڈمی کھولیں تو میری بیٹی ان کی پہلی سٹوڈنٹ ہوگی۔ انہوں نے ایک لمبی آہ بھر کر کہا کہ نہیں اب تو بالکل نہیں کیونکہ جب سے بیٹی کا نکاح کیا ہے تو اس نے سختی سے منع کیا ہے اور کہا ہے کہ میرے سسرال کے سامنے توبالکل نہیں۔
یہ زندگی کا وہ تماشا ہے جس میں مذہب کا ظاہری طور پر شاید کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ ایک شخص کی پیدائشی خصوصیت، شوق، اس کے رشتوں اور ڈانس جیسی آرٹ فارم کی سماجی تعبیر (جو ہمارے معاشرے میں کی جاتی ہے) کے درمیان کشمکش ہے۔ ڈانس کی اس سماجی تعبیر میں مذہبی تشریح کا پہلو خود بخود موجود ہے جسے نمایا ں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور وہ اس موضوع کی جمالیات میں کوئی کردار بھی ادا نہیں کر رہی بلکہ اس کا نمایاں ہونا اس کی جمالیات کو خام قسم کے پروپیگنڈہ میں تبدیل کر دے گا۔
میں فلم کا نقاد نہیں ہوں ایک عام فلم بین ہوں جو فلم اس لیے دیکھتا ہے کہ فلم اسے تفریح مہیا کر ے۔ کبھی حیرت، کبھی غم، کبھی خوشی اور کبھی ہنسنے کی کیفیت سے دوچار کرے۔ اس دوران اگر فلم میکر کوئی پیغام دینا چاہتا ہے تو وہ میرے لاشعور پر خود ہی نقش ہو جائے۔ میں فلم میں کہانی، پلاٹ اور کرداروں کی ظاہری اور باطنی کشمکش اس کی لائیٹ، کیمرے کی گرائمر اور کرداروں کے تاثرات سے دیکھنا چاہتا ہوں لیکن ’زندگی تماشا‘ میں کوئی ایک موڑ نہیں آیا جو اس کشمکش کو میرے سامنے اس ’گھمبیرتا‘ سے پیش کرے جس کی میں توقع کر رہا تھا۔
بہت سے کردار بنا کسی سیاق وسباق کے میرے سامنے آئے۔ قاری صاحب معافی والے سین میں کیوں آئے؟ معافی والے سین میں ایک آدمی جب اپنی معافی یاد کر رہا ہے ایک ایسے گناہ کے لیے جو سماج کے بیانیے کی وجہ سے گناہ بنا ہے تو وہاں پر میں اس شخص کے تاثرات کی شدت دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ کشمکش کی اس پرت کو کیسے اپنے جذبات کے ذریعے انٹرپریٹ کر رہا ہے. لیکن وہ سین ایک ماسٹر میں گزر جاتا ہے جس میں کردار کا چہرہ نظر نہیں آتا۔
خواجہ کی بیوی اسے کہتی ہے کہ اس کی بنائی ہوئی نیاز لوگ بہت پسند کرتے ہیں اور جب وہ نیاز دینے جاتا ہے تو پہلے سین میں دروازہ نہیں کھلتا اس کی وجہ میں خود سے تلاش کرتا ہوں کہ لوگ اس کی ہاتھ کی نیاز شاید ویڈیو کے بعد کھانا نہیں چاہتے جبکہ خواجہ کو اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ نیاز بچے کو دیتا ہے اور بچے کی ماں اسے منع کر دیتی ہے کہ وہ اس سے نیاز نہ لے۔ یہ سین ایک ماسٹر میں گزر گیا جس میں مجھے بچے کے تاثرات، عورت کی حقارت اور خواجہ کی لاچارگی دیکھنے کو نہیں ملی۔
ہم جنس پارٹی کے سین نے کہانی کی ڈویلپمنٹ میں کیا کردار ادا کیا؟ اگر خواجہ اس پارٹی اور اس میں بیٹھے ہوئے افراد کی شناخت کے بیانیے کو نہیں سمجھ سکتا تو پھر اس کے اندر ڈانس کو لے کر کشمکش کیوں پیدا ہو رہی ہے اور جب وہ پولیس والے کو اس پارٹی کی شکایت لگاتا ہے تو وہ خود اس سماجی بیانیے کا حصہ بن جاتا ہے جس میں عورت اور مرد کے علاوہ کسی تیسرے جنسی جذبے کی شناخت اور برداشت نہیں ہے اور وہ اس کے خلاف ریاست کی کوورسیو میژرز کا طلب گار ہے۔
وہ شخص شاید ہیرو نہیں ہے کیونکہ اساطیری داستانوں سے لے کر اب تک کی کہانی میں ہیرو وہی ہے جو حاشیے میں کھڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ جو سماج کے مروجہ بیانیوں کے خلاف لڑ رہا ہے۔ ایسی کہانی میرے لیے اپنی دلچسپی کھو دیتی ہے۔ پھر میرے لیے قاری صاحب،خواجہ صاحب اور ان کی بیٹی ایک برابر ہو جاتی ہے۔
ہم جنس پارٹی، قاری،خواجہ سراؤں کا سب پلاٹ وغیرہ وہ چیخوفین گنز ہیں جو نہ توپوری طرح سے لوڈ ہوتی ہیں اور نہ ہی چلتی ہیں ان کے بنا بھی کہانی میں بہت سے موڑ آ سکتے تھے جو کہ نہیں آئے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک ملاقات میں پیویش مشیرا نے کہا تھا کہ اگر ’لگے رہو منا بھائی‘ میں منورنجن نہ ہوتا تو وہ ڈاکومنٹری بن جاتی جس سے گاندھی گری لوگوں کو پڑھا سکتے ہو سکھا نہیں سکتے۔
منورنجن سے مراد فلم کی جمالیاتی ویلیو ہے نہ کہ صرف ہنسنی مذاق۔ جو لوگ پیرالل سینما کا ڈھونڈرا پیٹ رہے ہیں ان کے لیے اتنا ہی عرض ہے کہ فلم کی کامیابی کو جانچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ سینما میں کتنے سٹیپس ان ہوئے اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ کار گر نہیں ہے۔
فلم رنگیلا میں عامر خان جب فلم پر تبصرہ کرتا ہے تو ارمیلا کہتی ہے کہ تم ہو کون؟ وہ کہتا ہے کہ اپن پبلک ہے پبلک جو فلم کو اٹھاتی ہے اور گراتی ہے۔ اور پبلیک کی رائے میرے پاس میری ہمسر کی شکل میں یہ پہنچی کہ ’اگر میں یہ فلم سینما میں دیکھتی تو مجھے اپنے پیسے ضائع ہونے کا بہت دکھ ہوتا‘۔ مجھے اس وقت وہ ایسی فلم بین لگیں جو سینما ہال سے باہر نکل کر اونچی آواز میں کہتے تھے کہ ’ایہہ ڈبہ ہیگی جے‘۔
میری یہ رائے فلم کے اس ایڈیشن پر ہے جو سنسر نے منظور کیا ہے۔ سینما میں سنسر کٹ ہی چلتا ہے ہالی ووڈ سے لےکر ٹالی ووڈ تک ڈائریکٹرز کٹ سینما کی زینت شاید کم ہی بنتے ہیں۔