گو کہ میرا اپنا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہے لیکن ضروری نہیں کہ آپ صرف اپنے بارے میں ہی کسی مغالطے کو دور کریں بلکہ ایک لکھاری کی حیثیت سے لازم ہے کہ یہ کام دوسروں کے حوالے سے بھی کیا جائے تاکہ تاریخ کا سفر صحیح سمت رواں رہے۔
کئی عشرے پہلے پختون قوم پرست سیاستدان ولی خان ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ جس دن پنجاب اسٹیبلشمنٹ کے مقابل آیا تو اسی دن سے پاکستان صحیح ٹریک پر آنا شروع ہو جائے گا۔
یہ اشارہ پنجاب کی لیڈر شپ کی طرف ہی تھا کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ولی خان جیسے جہاندیدہ سیاستدان پنجاب کے سیاسی مزاج اور تاریخی حقائق سے واقفیت نہ رکھتے ہوں۔
کئی عشرے پہلے دور اندیش اور تجربہ کار سیاستدان ولی خان کا تجزیہ اس وقت حقیقت کا روپ دھار گیا جب پنجاب کے سیاستدان یعنی نواز شریف کھل کر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے آ گئے۔
میں ذاتی طور پر اس رائے سے قطعاً اتفاق نہیں کرتا کہ گزشتہ چند سالوں میں پنجاب پہلی بار ہی اسٹیبلشمنٹ کی مخالف سمت میں کھڑا دکھائی دیا۔
کیونکہ تاریخی حقائق اور پنجاب کا سیاسی مزاج اس سے یکسر مختلف ہیں۔ اس حوالے سے ہم تھوڑا سا ماضی میں جھانکتے ہوئے پنجاب کے سیاسی کردار کا جائزہ لیتے ہیں۔
اگر پنجاب پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ عسکری منطقوں کو سب سے زیادہ قوت پنجاب نے فراہم کی جس کی وجہ سے وہ (عسکری منطقے ) اپنی آئینی حدود سے باہر نکلے تو یہ الزام سراسر بے بنیاد ہے کیونکہ آبادی کے تناسب سے پنجاب کی نمائندگی خیبر پختونخوا کی نسبت بہت کم ہے۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پاکستان میں مارشل لاء لگانے والے چاروں آمروں میں سے کسی ایک کا تعلق بھی پنجاب سے نہیں تھا بلکہ 2 آمروں ضیا الحق اور پرویز مشرف انڈین مہاجر جبکہ ایوب خان اور یحییٰ خان خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے تھے۔
ویسے بھی جینیاتی حوالے سے آمرانہ طرز عمل کا الزام پنجاب پر اس لیے نہیں دھرا جا سکتا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر بھارتی فوج میں مشرقی پنجاب کی اکثریت ہونے کے باوجود وہاں کا رویہ آمرانہ طرز عمل کی بجائے جمہوری اقدار کے احترام کا کیوں ہے؟
حالانکہ دونوں طرف پنجابی ہیں جو جینیاتی اور نفسیاتی حوالوں سے ایک ہیں۔ در اصل آمرانہ طرز فکر قومی کی بجائے ادارہ جاتی نفسیات سے جڑا ہوتا ہے اور اس کا الزام کسی صوبے یا قومیت پر لگانا یا تو زیادتی ہے یا حقائق سے بے خبری!۔
دوسری بات یہ کہ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے قوم پرست لیڈروں اور تحریکوں نے ماضی میں مسلسل پنجاب کو اپنے حقوق کا غاصب قرار دے کر اسے (پنجاب ) کو ٹارگٹ کیا۔ حالانکہ پنجاب کے عوام کو اسٹیبلشمنٹ سے فائدہ پہنچنے کی بجائے ہمیشہ نقصان ہی اٹھانا پڑا۔
اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ طرز عمل (پنجاب پر حقوق کی پامالی کا الزام ) قوم پرستوں کی نادانی تھی یا اس اسٹیبلشمنٹ کا منصوبہ جو بذات خود حقوق کی پامالی کی اصل ذمہ دار تھی اور پنجابی عوام کو طاقتور طبقے کے ہاتھوں خود بھی دوسری قومیتوں جیسے استحصال کا سامنا رہا۔
یہ بات بھی ماننے والی ہے کہ آمریت کے خلاف جدوجہد میں بھی پنجاب نے ہمیشہ صف اوّل کا کردار ادا کیا۔ ایوبی مارشل لاء کے خلاف گو کہ خیبر پختونخوا اور سندھ میں خصوصاً بائیں بازو کی جماعتوں نے بہت اہم اور دلیرانہ کردار ادا کیا۔
یاد رہے کہ پولی ٹیکنیک کالج پشاور کے ایک طالبعلم (ہاشم خان ) نے ڈکٹیٹر ایوب خان پر ایک جلسے میں فائرنگ بھی کی لیکن اس تحریک کو اصل طاقت پنجاب خصوصاً راولپنڈی کے طالبعلموں نے اس وقت فراہم کی جب پولی ٹیکنیک کالج راولپنڈی کا ایک طالبعلم پولیس فائرنگ سے مارا گیا جس کے بعد مزاحمت کی ایک طاقتور لہر اٹھی جسے نوابزادہ نصر اللہ خان ولی خان اور مولانا مودودی جیسے دور اندیش رہنماؤں کی بصیرت اور رہنمائی حاصل رہی اور بالآخر ایوب خان کو استعفی دے کر گھر جانا پڑا۔
70 کے الیکشن میں بھٹو آمرانہ قوتوں کو للکارتے ہوئے انتخابی میدان میں اترے تو پنجاب نے اسے نہ صرف پذیرائی کی طاقتور لہر فراہم کر دی بلکہ ایک انتخابی سبقت بھی دلا دی۔
اگر چہ بھٹو کے آبائی صوبے خصوصاً سندھ کے دیہی علاقوں نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پیپلز پارٹی کا پورا پورا ساتھ دیا لیکن خیبر پختونخوا میں پلڑا اسٹیبلشمنٹ نواز جماعت مسلم لیگ (قیوم اور کنونشن مسلم لیگ ) جبکہ بلوچستان میں قوم پرست اور مذہبی طبقے کا بھاری رہا۔
یعنی اسٹیبلشمنٹ مخالف پیپلز پارٹی کی طاقت کا اصل محور بھی پنجاب ہی تھا۔ 1977 میں ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت پر ضیا الحق کے مارشل لاء نے شبِ خون مارا تو پنجاب ڈٹ کر اسی بھٹو کے ساتھ کھڑا نظر آیا جسے اسٹیبلشمنٹ کی عداوت اور جنرل ضیاء کی خوفناک آمریت کا سامنا تھا۔
کچھ عرصہ بعد بھٹو کو فوجی حکومت کے دباؤ پر پھانسی کی سزا سنائی گئی تو پنجاب کا ردعمل اس حد تک خوفناک تھا کہ لاہور کے کسی چوراہے پر اچانک کوئی کارکن نمودار ہوتا اور خود پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دیتا۔
ردعمل اور مزاحمت کی ایسی مثال پاکستان کے کسی اور گوشے سے تو چھوڑیں ذوالفقار علی بھٹو کے اپنے صبوبہ سندھ سے بھی سامنے نہ آ سکی۔
طویل مارشل لاء کے دوران ہزاروں کارکنوں کی گرفتاریاں کوڑے اور جرمانے بھی سب سے زیادہ پنجاب ہی کے حصے میں آئے ( تاہم دوسرے صوبوں خاص کر سندھ میں بھی احتجاجی تحریک کی طاقتور لہر اٹھی اور ہزاروں سیاسی کارکن ریاستی جبر کا نشانہ بنے ) لیکن بد ترین آمریت اور انتقامی کارروائیوں کے باوجود بھی پنجاب اپنے سیاسی مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹا۔
10 سالہ آمریت کے اختتام پر بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا تو اس کی نگاۂ انتخاب سندھ ( کراچی ) کی بجائے لاہور (پنجاب ) ہی تھا۔
بے نظیر بھٹو کو سب سے زیادہ اعتماد پنجاب پر ہی تھا جس کا پنجاب نے بھرم بھی رکھا۔ کیونکہ جب 10 اپریل 1986 کو اسٹیبلشمنٹ مخالف بے نظیر بھٹو لاہور ایئرپورٹ پر اتریں تو 10 لاکھ سے زیادہ افراد نہ صرف شاہراہوں پر ان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے بلکہ اگلے الیکشن میں حسب روایت پیپلز پارٹی کو بھاری مینڈیٹ دے کر اسٹیبلشمنٹ مخالف مؤقف پر قائم رہنے کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔
گویا 1970 ( بلکہ ایوبی مارشل لاء یعنی 1958) سے 1990 تک پنجاب کا عمومی سیاسی رجحان اسٹیبلشمنٹ مخالف ہی رہا۔ ( اگر چہ فاطمہ جناح کا ساتھ نہ دینے کا طعنہ پنجاب کو سننا پڑا لیکن در اصل فوجی آمریت پنجاب کے انتخابی راستے اس حد تک مسدود کر چکی تھی کہ رائے عامہ کو اپنی اصل شکل کی بجائے فوجی اور انتظامی مداخلت کے ذریعے ایک غیر فطری اور مصنوعی شکل میں سامنے لایا گیا) ۔
بے نظیر بھٹو کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی پہلی بار پنجابی لیڈر شپ یعنی نواز شریف منظر پر ابھرے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی ریشہ دوانیوں اور پیپلز پارٹی کی پے درپے غلطیوں نے سیاسی منظر نامے اور معروضی حالات پر بنیادی اثر ڈالا جس سے پہلی بار پنجاب کی اپنی لیڈر شپ نے جنم لیا۔
یہی وہ وقت تھا جب نواز شریف برق رفتار انداز میں مقبولیت اور اقتدار کی طرف بڑھ رہے تھے اور صرف 2 سال بعد 1990 میں وہ ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ اس مختصر عرصے میں اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب پہلی بار ایک ہی پیج پر نظر آئے لیکن 1993 میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ اور نواز شریف حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی پنجاب پھر سے اپنی پرانی پوزیشن یعنی اسٹیبلشمنٹ مخالف سمت میں چلا گیا۔
اگلے دو عشروں میں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کا ٹکراؤ کسی نا کسی حوالے سے جاری رہا لیکن پنجاب کے سیاسی کرداروں کی تبدیلی کے باوجود بھی اپنی وہ تاریخ دہراتا رہا جو وہ ماضی میں بھٹوکی حمایت اور ضیا الحق کے مارشل لاء کے خلاف مزاحمت میں دہراتا رہا۔
یعنی پنجاب مسلسل سول لیڈر شپ کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ اور یہی وجہ تھی کہ بد ترین ریاستی جبر جلا وطنیوں اور قید و بند کے باوجود بھی نواز شریف کی مقبولیت نہیں کم نہیں ہوئی۔
اس دوران پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف وکلاء تحریک کا منبع اور مرکز بھی پنجاب ہی رہا۔ اور پھر آخری بار جب نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا تو ایک گھاگ اور تجربہ کار سیاستدان کے طور پر نواز شریف پنجاب کے سیاسی مزاج اور رویے سے بخوبی واقف ہو چکے تھے اس لئے شدید دباؤ اور مخالفت کے باوجود بھی وہ سول سپرمیسی کا خوفناک لیکن غیر روایتی نعرہ بلند کرتے ہوئے پنجاب کی سڑکوں پر نمودار ہوئے۔
یہی وہ وقت تھا جب نہ صرف پورے پنجاب نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا بلکہ عوامی سطح پر ایسی مبالغہ آمیز سیاسی طاقت فراہم کر دی کہ نواز شریف کو تاریخی حوالے سے پہلی بار اسٹیبلشمنٹ مخالف رائے عامہ کی تخلیق اور اٹھان میں ایک حیرت انگیز کامیابی ملی جس سے سول سپر میسی کا طاقتور اور ناقابل شکست بیانیہ تشکیل پایا۔
یہی وہ منظر نامہ ہے جس نے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو عوامی سطح پر نہ صرف تنہا کرتے ہوئے پیچھے کی طرف دھکیلا بلکہ ریاستی طاقت اور کنٹرول کے حوالے سے مستقبل میں مقتدر قوتوں کے کردار کو سوالیہ نشان بھی بنا دیا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس رائے کو تاریخی حقائق اور شواہد قطعاً قبول نہیں کرتے کہ پنجاب پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کے مقابل آیا بلکہ اس کا اصل پس منظر یہی تھا کہ پنجاب لیڈر شپ کے معاملے میں دوسرے صوبوں سے کہیں بہت پیچھے رہ گیا تھا۔
کیونکہ ایک طرف چھوٹے صوبوں کے پاس بھٹو، ولی خان، غوث بخش بزنجو، اکبر بگٹی، نواب خیر بخش مری اور جی ایم سید جیسے جہاندیدہ اور تجربہ کار سیاسی لیڈرز موجود تھے۔ تو دوسری طرف پنجاب جیسا بڑا صوبہ لیڈر شپ کے حوالے سے فقدان کا شکار رہا جس کی وجہ سے رائے عامہ کو ٹھوس بنیادوں پر استوار ہونے اور سامنے آنے میں مسلسل دشواری کا سامنا رہا۔
تازہ صورت حال یہ ہے کہ عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد اسٹیبلشمنٹ سے الجھ پڑے تو پہاڑ جتنی غلطیوں اور تہذیب کو چیرتے ہوئے لہجے کے باوجود بھی پنجاب نے عمران خان کو مایوس نہیں ہونے دیا ۔
لیکن 9 مئی عمران خان کے لیے وہ بد بخت دن ثابت ہوا جب پنجاب نے روایتی مزاج یعنی اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کی بجائے ذمہ دارانہ رویے اور طرز عمل کو فوقیت دی اور خود کو اس سیاست سے فاصلے پر لے کر جانے لگا جس کے بطن سے سیاسی جدوجہد کی بجائے تخریب اور تباہ کاری برآمد ہونے لگی تھی۔
گویا پنجاب کا سیاسی مزاج اگر چہ اسٹیبلشمنٹ مخالف ہی رہا لیکن ایک ذمہ دارانہ رویے اور باشعور طرز عمل کے ساتھ !
یہی وہ حقائق اور شواہد ہیں جس پر میری یہ دلیل استوار ہے کہ پنجاب کے بارے میں عمومی تاثر (اسٹیبلشمنٹ کی مدد ) کا الزام بے جا اور حقائق سے بے خبری کی بنیاد پر ہے۔
پختون ہوتے ہوئے بھی میں حیرت سے دو چار ہوں کہ پنجابی انٹیلیجنسیا اس طعنے ( اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ) پر مسلسل خاموش کیوں رہا؟۔ حتیٰ کہ بیرونی حملہ آوروں کو خوش آمدید کہنے کا طعنہ بھی لا پروائی کے ساتھ سہتے رہے۔ ورنہ غاصب قوتوں کے خلاف راجہ پورس سے دُلا بھٹی اور احمد خان کھرل سے موجودہ منظر نامے تک پنجاب کا تاریخی ٹریک ریکارڈ کافی حد تک قابل اطمینان بھی ہے اور قابل فخر بھی۔ لیکن کوئی حقائق کی کھوج میں نکلے تو سہی۔