50 سال بعد روس کا خلائی مشن چاند کے لیے روانہ

جمعہ 11 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تقریباً نصف صدی بعد اپنا پہلا مشن چاند پر بھیجتے ہوئے روس بھارت کے ساتھ ایک نئی خلائی دوڑ میں شامل ہوگیا ہے۔ روسی خلائی ایجنسی روسکوسموس کی جانب سے نشر کی جانے والی براہ راست تصاویر کے مطابق، مشرق بعید میں وستوچنی کوسموڈروم سے لونا 25 جہاز جمعہ کو چاند پر اترنے کے لیے روانہ کیا گیا ہے۔

1976 میں متحدہ سوویت یونین کی حیثیت سے آخری مشن چاند پر بھیجنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ روس نے چاند پر لونا 25 جہاز یورپی خلائی ایجنسی کی مدد کے بغیر روانہ کیا ہے، کیونکہ یوکرین پر حملے کے بعد ایجنسی نے روس کے ساتھ خلائی تعاون ختم کر دیا تھا۔

روسی میڈیا کے مطابق لونا 25 لینڈر کا وزن تقریباً 800 کلوگرام ہے، جو 5 دنوں میں قمری مدار تک پہنچے گا۔ جس کے بعد یہ خلائی جہاز قمری قطب جنوبی کے علاقے میں اترنے سے پہلے صحیح جگہ کا انتخاب کرنے میں 3 سے 7 دن لے گا ۔

روسکوسموس سے وابستہ سینیئر اہلکار الیگزینڈر بلوخین کے مطابق تاریخ میں پہلی بار مشن قمری قطب جنوبی سے چاند پر اتریں گے کیونکہ اب تک ہر کوئی خط استوا میں اترتا آرہا ہے۔

توقع ہے کہ روسی لینڈر 23 اگست کو چاند پر پہنچ جائے گا، جو لگ بھگ ایک ہندوستانی جہاز کے بھی پہلی مرتبہ چاند پر اترنے کا وقت ہوگا، جسے 14 جولائی کو قمری مدار میں بھیجا گیا تھا۔

راکٹ چاند کے لینڈر لونا 25 خودکار اسٹیشن کے ساتھ روس کے مشرق بعید میں واقع وستوچنی کوسموڈروم لے لانچ پیڈ پر لے جایا جارہا ہے۔ (تصویر: روسکوسموس اسٹیٹ اسپیس کارپوریشن)

دونوں ممالک کے مشن قمری جنوبی قطب کی جانب گامزن ہیں، جو ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کوئی خلائی جہاز آسانی سے نہیں اترا۔ اب تک صرف سوویت یونین، امریکا اور چین کی تین حکومتیں چاند پر اترنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں۔

روسی خلائی ایجنسی روسکوسموس کے مطابق روسی ماڈیول ایک سال تک چاند پر تحقیقی کام کرے گا اور چاند کی سطح کے مواد اور ماحول پر مٹی کے نمونے لے کر ان کا تجزیہ اور طویل مدتی سائنسی تحقیق کرے گا۔

روسکوسموس کا موقف ہے کہ اس مشن سے روس دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ وہ چاند پر تحقیقی سامان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور چاند کی سطح تک روس کی ممکنہ رسائی کو یقینی بھی بنا سکتا ہے۔

یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد روس پر عائد پابندیوں نے اس کے خلائی پروگرام کو متاثر کرتے ہوئے مغربی ٹیکنالوجی تک رسائی مشکل بنادی تھی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لونا 25 کا مقصد ابتدائی طور پر ایک چھوٹی چاند گاڑی کو لے جانے کے لیے تھا، لیکن بہتر انحصاری کے لیے خلائی جہاز کے وزن کو کم کرتے ہوئے اس خیال کو ترک کر دیا گیا۔

مقبول روسی خلائی تجزیہ کار وٹالی ایگوروف کا کہنا ہے کہ غیر ملکی الیکٹرونکس ہلکے  جبکہ مقامی الیکٹرونکس بھاری ہیں۔ ’اگرچہ سائنسدانوں کے پاس چاند کے پانی کا مطالعہ کرنے کا کام ہوسکتا ہے، روسکوسموس کے لیے، بنیادی کام صرف چاند پر اترنا، کھوئی ہوئی سوویت مہارت کو بازیافت کرنا اور نئے دور میں اس کام کو انجام دینے کا طریقہ سیکھنا ہے۔‘

الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے روسی صحافی ڈینیئل ہاکنز نے کہا کہ روس کے لیے یہ مشن ایک طویل وقفے کے بعد بڑے خلائی مشن میں واپسی سے کسی طور کم نہیں۔ خلائی جہازوں کی مختلف مداروں میں مشن بھیجنے کی زبردست سوویت میراث سے ہر ایک بخوبی واقف ہے۔

ڈینیئل ہاکنز کے مطابق سوویت یونین کے ٹوٹنے اور 1976 میں چاند پر آخری تحقیقات بھیجنے کے بعد، روسی خلائی ادارہ واقعی زوال پذیر ہو گیا تھا۔ ’چاند پر بھیجا گیا ایک کامیاب خلائی مشن یہ ظاہر کرے گا کہ روس کے ہنگامہ خیز ماضی اور حالیہ مغربی پابندیوں کے باوجود یہ ملک بڑے خلائی مشن سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘

دوسری جانب ایک کامیاب روسی خلائی مشن یہ ظاہر کرے گا کہ وہ بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کے لیے روس میں مقامی طور پر مؤثر طریقے سے بنائے جانے والے آلات کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ 2011 اور2016  میں روس کے خلائی مشن لینڈنگ میں ناکام رہے تھے۔

‘سیاسی مقابلہ’

تجزیہ کار وٹالی ایگوروف سمجھتے ہیں کہ یہاں چاند کا مطالعہ یا تحقیق مقصد نہیں ہے۔ “مقصد دو سپر پاورز یعنی چین اور امریکا سمیت دیگر ممالک کے درمیان سیاسی مقابلہ ہے جو خلائی سپر پاور کا اعزاز بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اسپیس پورٹ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا منصوبہ ہے جو روس کو خلائی سپر پاور بنانے اور قازقستان کے بیکانور کاسموڈروم سے روسی مشن روانہ کرنے کی کوششوں کی کلید ہے۔

گزشتہ سال وستوچنی کوسموڈروم میں خطاب کرتے ہوئے، صدر ولادیمیر پوتن نے کہا تھا کہ سوویت یونین نے مکمل پابندیوں کے باوجود 1961 میں پہلا انسان خلا میں بھیجا تھا۔

‘یوکرین جنگ کے باعث مغربی اقتصادی تعزیرات کے باوجود روس اپنا قمری پروگرام تیار کرے گا۔ ہم کسی بھی قسم کی مشکلات اور بیرونی کوششوں کے باوجود اپنے آباؤ اجداد کے آگے بڑھنے کے عزم سے رہنمائی لیتے رہیں گے۔‘

2019 میں چاند کے جنوب قطبی علاقہ پر اترنے کی پچھلی بھارتی کوشش اس وقت چکنا چور ہوگئی تھی جب لینڈر چاند کی سطح سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا تھا۔

قمری جنوب قطبی علاقہ سائنسدانوں کے لیے خاص دلچسپی کا باعث ہے، جو سمجھتے ہیں کہ مستقل طور پر سایہ دار قطبی گڑھوں میں پانی کی موجودگی ممکن ہو سکتی ہے۔ چٹانوں میں جمے ہوئے پانی کو مستقبل کے متلاشی افراد ہوا اور راکٹ کے ایندھن میں تبدیل کر سکتے ہیں۔

برطانیہ کی شاہی رصد گاہ گرینچ کے ماہر فلکیات ایڈ بلومر سمجھتے ہیں کہ چاند ابھی بڑی حد تک اچھوت ہے جس کی پوری تاریخ اس کی سطح پر رقم ہے۔ ’زمین کے برخلاف یہ (چاند) قدیم اور اپنی بہترین حالت میں ہے ۔ یہ اپنی تجربہ گاہ بذاتِ خود ہے۔‘

لونا 25 چاند کی چٹان اور مٹی کے نمونے حاصل کرے گا۔ وہاں کسی بھی نوعیت کے قیام کی غرض سے کسی تعمیر سے قبل چاند کے ماحول کو سمجھنے کے لیے درکار نمونے بہت اہم ہیں۔ ایڈ بلومر کے مطابق ’ورنہ ہم چیزیں بنا رہے ہوں گے اور 6 ماہ بعد انہیں بند کررہے ہوں گے کیونکہ ہر شے مٹی کے ذرات سے تباہ ہوجاتی ہے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp