14 اگست پاکستانی قوم کے لیے بہت اہمیت کا حامل اور حب الوطنی کا جذبے سے سرشار ایک خاص دن ہے۔ یہ دن کسی عید سے کم بھی نہیں ہوتا۔
14 اگست کا بچوں، نوجوانوں، بوڑھوں سبھی کو شدت سے انتظار ہوتا ہے، اس دن کے لیے خاص تیاری کی جاتی ہے، بچے اور بڑے سبز اور سفید رنگ میں ڈھلنے کے لیے بڑھ چڑھ کر تیاریوں میں مصروف رہتے ہیں۔
صرف یہی نہیں گھروں، گلی محلوں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی ان 2 رنگوں میں ڈھالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، تعلیمی ادارے ہوں یا پھر دفاتر ہر جگہ 14 اگست کے حوالے سے خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔
چند برسوں سے آزادی کے جشن میں باجے کا اضافہ ہوا
گزشتہ چند برسوں سے 14 اگست کے جشن میں ’باجے‘ کا بھی اضافہ ہو گیا ہے، جو ہر گلی محلے میں 14 اگست کے حوالے سے بجتا ہوا سنائی دیتا ہے۔ باجا 14 اگست کے جشن میں اس قدر سرایت کر گیا ہے کہ اب باجے کے بغیر اس جشن کو منانے میں لوگ ادھورا پن محسوس کرتے ہیں۔
صرف بچے ہی نہیں بلکہ نوجوان مرد اور خواتین بھی آزادی کے اس جشن پر باجے لے کر سڑکوں پر نکل آتی ہیں۔ اس سے آواز سے ماحول میں آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے۔ باجے کی آواز سے گھروں میں بیمار اور بزرگ انتہائی نا خوش ہوتے ہیں۔ اس سے ان کی آزادی کی خوشی مانند پڑ جاتی ہے۔
’باجے‘ سے متعلق جب کچھ پارلیمنٹرینز سے سوال پوچھا گیا تو ہر کسی کا مختلف رد عمل تھا مگر اس کے باوجود اس میں زیادہ تر کا یہی خیال تھا کہ باجا نہ ہو تو 14 اگست کا مزہ ہی نہیں آتا اور وہ بھی ہر سال اس جشن میں باجا بجانا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ اس سے آزادی کے جشن کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔
14 اگست تو ہمارے لیے عید کا دن ہوتا ہے: رہنما پی ٹی آئی
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے ایک معروف رہنما نے کہا کہ 14 اگست تو ہمارے لیے عید کا دن ہوتا ہے، وہ تمام لوگ جنہوں نے آزادی کی جنگ لڑی اور ہجرت کر کے پاکستان آئے، جنہوں نے اپنی خواتین کی عزتوں اور اپنی ذات کی قربانیاں دیں وہ ہمارے ہیرو ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب ملک بننے کی خوشی ہو تو ماحولیاتی آلودگی سے فرق نہیں پڑتا پھر چاہے وہ باجا ہو یا پھر ڈھول ہم دیوانے ہوکر اس کی تھاپ پر ناچتے ہیں۔
پاکستان کی 75 ویں سالگرہ پر پارلیمنٹ میں باجا بجایاتھا: جویریہ ظفر
رکن قومی اسمبلی جویریہ ظفر نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اب تک جھنڈیاں، پرچم اور باجا لینے کی ضد کرتی آئی ہیں، اور بجاتی بھی ہیں کہتی ہیں کہ پاکستان کی 75 ویں سالگرہ پر انہوں نے تو پارلیمنٹ میں بھی باجا بجایا تھا۔
ان کاکہنا تھا کہ یہ خوشی کا موقع ہے اور اللہ کے فضل سے ہمارے آباو اجداد نے ہمارے لیے ہی آزادی حاصل کی اور اللہ کا شکر ہے کہ ہم ایک آزاد ملک میں پیدا ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جیسے سوشل میڈیا پر یوم سیاہ منانے کی بھی مہم چلائی جا رہی ہے اور یہ انتہائی افسوس کی بات ہے۔ ہمارے لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہے کہ ہم نے یہ آزادی کیسے حاصل کی ہے ان میں سے کوئی ایک دن بھی جیل میں گزارے اور تو ان سے پھر پوچھا جائے کہ آزادی کیا ہوتی ہے ؟
ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں، فلسطینیوں اور انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں سے جا کر پوچھیں کہ وہ کس حال میں ہیں؟، ہمیں بنا بنایا ملک مل گیا اس لیے ہمیں شاید اس کی قدر نہیں اور ہم تماشہ لگا رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں جویریہ ظفر کا کہنا تھا کہ جس طرح من کرے آزادی کاجشن منائیں مگر کسی کو تنگ نہ کریں۔ اس دن کا بہترین عمل یہ ہے کہ اس روز ایک پودا ضرور لگایا جائے، باجا بھی بجائیں مگر کسی کے کان میں جا کر نہیں بجانا چاہییے۔
باجے کی آواز پسند نہیں، کبھی نہیں بجایا: رکن اسمبلی
قومی اسمبلی کی ایک اور رکن کا کہنا تھا کہ انہوں نے باجا کبھی خود بجایا ہے اور نہ ہی کبھی بچوں کو لے کر دیا ہے کیونکہ انہیں اس کی آواز بالکل بھی پسند نہیں ہے۔