’اقلیت‘ سے خوفزدہ ’اکثریت‘ ؟

ہفتہ 12 اگست 2023
author image

ثنا ارشد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہمیں ہر لمحہ چوکنا رہنا پڑتا ہے کہ ہم کیا بات کہہ رہے ہیں اور کس سے کہہ رہے ہیں ؟ احساس دلایا جاتا ہے کہ ہم مختلف ہیں اور اس معاشرے میں ہماری کوئی جگہ نہیں، ذاتی طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور اگر کسی سے اس بارے میں بات کریں تو لوگوں کے تیور ہی بدل جاتے ہیں، مذہب کے نام پر امتیاز تو بہت ہی عام سی بات ہے۔ لوگ تو ہمارے ساتھ کھانے پینے سے کتراتے ہیں۔ دفاتر میں ہمارے پانی اور چائے کے برتن الگ رکھے جاتے ہیں۔

میری بیٹی سے اسکول ٹیچرز اور ساتھی طالبعلموں کا سلوک اتنا برا ہے کہ وہ سکول جانے سے ڈرتی ہے۔ یہ سب ہماری ایک دوست نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ میری خواہش ہے ہم بیرون ملک چلے جائیں کیونکہ ہمارے لیے وہ بہتر آپشن ہے۔ انسان کتنا بے بس محسوس کرتا ہے جب وہ کچھ نہ کر سکتا ہو۔مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں اس کو کیا جواب دوں، یہ سب کتنا تکلیف دہ ہے۔

اس وقت دل دماغ میں بس یہ آیا کہ ہمارے عقیدے اور آئین کے برعکس یہ غیرمسلم لیکن انسان تو ہیں، پاکستانی تو ہیں لیکن ہم تو ان سے انسان ہونے کا حق بھی چھین لیتے ہیں۔ ان کو حقوق دینا تو دور ان کی حیثیت قبول کرنے کے بھی رودار نہیں ہیں۔ قائداعظم نے تومستقبل کی نئی ریاست کی سمت طے کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر کسی کو آزادی ہوگی۔ سیاسی، مذہبی، معاشی اور معاشرتی لحاظ سے اپنی زندگی گزارنےکی آزادی۔

لیکن ہم نے فتوےاورتوہین مذہب کے الزامات لگا کر، مذہبی و سیاسی امتیاز کا نشانہ بنا کر، تو کہیں مذہبی دلائل تراش کر جناح کے خواب کوتعبیر سے دور کردیا۔ کسے معلوم تھا کہ برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ہم ریاست و اقتدار کے مالک، با اختیار طبقوں اور انتہا پسند مذہبی حلقوں کے ہاتھوں ایک بار پھر قید ہو جائیں گے۔ اور برائے نام آزاد ریاست میں اقلیتوں سے آزادی چھیننے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

ہمیں تو ایک طاقتور قوم اور بہترین پاکستانی بن جانا چاہیے تھا لیکن ہم نے اسے زہریلے ہجوم میں بدل دیا۔ وہ زہریلا ہجوم جس میں ذرا ذرا کی تقسیم پر اپنے ہی شہریوں کو دیگر شہریوں سے الگ کر دیا گیا۔ بظاہر روشن خیال ملک میں جہاں ایک مسلمان ہی دوسرے مسلمان کو مشکوک سمجھ کر فتوی لگائے اور موت کے گھاٹ اتار دے وہاں اقلیتیں خود کو کیسے محفوظ سمجھیں گی؟ جن پر آئے روز حملوں اور قتل جیسے واقعات سامنے آتے ہیں۔

توہین مذہب کے نام پر اقلیتوں کوبرسرِ عام موت کے گھاٹ اتار دیاجاتا ہے، فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات میں اموات کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔ کتنے ہی لوگ مذہبی درندگی کا شکار بنے، جن میں سکھ، ہندو، عیسائی اور احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ اوراگرتوہین مذہب کے الزام سے کوئی خود کو بے گناہ ثابت کروا لے تو وہ روپوش ہو جاتا ہے یا ملک چھوڑ کر چلا جاتا ہےکیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا، وہ جانتے ہیں کہ اگر پھر کوئی فتویٰ برآمد ہو گیا تو ریاست بھی ان کو تحفظ دینے میں ناکام ہو گی۔

دوسری طرف مذہب جس کا انتخاب انسان کا بنیادی حق ہے اور کسی کو زبردستی مذہب کی تبدیلی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ، ادھر بھی اقلیتوں کے بعض حلقوں میں یہ شکایت ہے کہ ان کی کم سن بچیوں کو مذہب کی تبدیلی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اگر اقلیتوں کے لیے ملازمتوں کے حصول کی صورتحال دیکھیں تو وہ بھی کوئی خاص اچھی نہیں ہے، اکثر اشتہارات میں سینٹری ورکرز کی اسامی صرف اقلیتی افراد کے لیے مختص ہوتی ہے۔ یہ وہ نوکری ہے جس کو مسلمان کرنے سے انکاری ہوتے ہیں۔ اور اس کے ذمہ دار فیصلہ ساز افراد ہیں جو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام نظر آتے ہیں۔

یہ وہ ملک تو ہر گز نہ تھا جہاں مسلکی اختلافات کی وجہ سے انسان قتل ہو جائیں، مذہب کی جبری تبدیلی کرائی جائے، ملازمتوں کا میرٹ سیاسی کے ساتھ مذہبی بھی ہو۔ نہ قانون پر عمل ہوتا ہے اور نہ ہی محافظ اس پر عمل کراتے ہیں۔عوام خود ہی جج بنتی ہے خود ہی فیصلہ سنا دیتی ہے اور خود ہی عملدرآمد بھی کر ڈالتی ہے۔

ریاست اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام اورنظامِ عدل بے بس نظر آتاہے۔ مغربی ممالک کی پابندیوں پر تنقید کرنےاور جلاؤ گھیراؤ کر کے احتجاج کرنے والوں کے اپنے وطن میں اقلیتوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔

اس معاشرے میں بند ذہنوں کے ساتھ صرف افراد کا ہجوم رہتا ہے جو حقوق دینے سے قاصر ہے۔ اگر ہم بند ذہنوں کی کھڑکیاں کھول لیں تو اقلیتوں کے لیے معاشرے میں آزادانہ نقل وحرکت کی کھڑکیاں بھی کھل جائیں گی۔ لیکن اس کے لیے ریاست کو موثر اقدامات کرنے ہوں گے ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp