جلتے پاسپورٹ اٹھائے جشن آزادی سے انکار، وطن اور اس کے قیام کے مقاصد کی بجائے لسانیت اور قومیت پر زور دیتے کوتاہ بینی اور ناعاقبت اندیشی کے بیج سے اُگنے والے پیڑ نے سیاسی تعصب کے زہر آلود پھل تو دے دئیے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اب انہیں کون کھائے گا؟
عملی طور پر ’میرا چور زندہ باد، تمہارا چور مردہ باد‘ کے گرد گھومتی سیاست سے جان چھڑا کر عام پاکستانی کے گھر پہنچیں تو کمر توڑ مہنگائی، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ، ننھے بچوں کی معصوم خواہشات کا قتل، بڑوں کے چہروں پر مجبوریوں کی جھریاں تقریبا ہر گھر کی کہانی ہیں۔ بیروزگاری، غربت، مستقبل سے متعلق بے یقینی اور امیدوں کو نگلتا خوف کا عفریت دھاڑ رہا ہے اور جنہیں اسے روکنا ہے وہ کہیں اور مصروف ہیں۔
ملک کی معاشی سمت دیکھیں تو ماضی میں دوسروں کو قرض دینے والا آج عملا کاسہ گدائی لیے پھر رہا ہے۔ 60 کی دہائی میں خود گاڑیاں بنانے والا آج امپورٹ پر انحصار کر رہا ہے۔ دنیا کا مٹی کا سب سے بڑا ڈیم رکھنے والا بجلی بحران کا شکار ہے۔ فون سیٹس بنانے کا کارخانہ موبائل سازی کے منصوبے بناتے بناتے بند ہو کر کھنڈر ہو چکا ہے۔ غیرملکی ایئرلائنز کھڑا کرنے والا ملک اپنی قومی ایئرلائن کو چلانے سے قاصر اور خسارے سے نکال نہیں پا رہا۔
طب کے شعبہ میں اندرون ملک اور دوسرے ملکوں میں جا کر بیمار جسموں کو صحت دینے والے مسیحا اب پاسپورٹ ہاتھوں میں غیر ملکی سفارتخانوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ ہر فرد اسی فکر میں گھن چکر بن چکا ہے ایک بار باہر نکلنے کا موقع ہاتھ لگے۔
تعلیمی میدان میں غیر ملکیوں کو بلا کر تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والی جامعات اب نوجوان ذہنوں کو وسعت دینے کی بجائے کاپی پیسٹ والے لکیر کے فقیر پیدا کر رہی ہیں۔ یہ ادارے شاہینوں کو وسعتوں کا خوگر بنانے کے بجائے اپنے مستقبل کو احساس کمتری کا شکار بنانے کی فیکٹریاں ہو چکے۔
تم کہتے ہو کہ آؤ آزادی کا جشن منائیں، مگر یہ تو بتاؤ ذہن میں سلگتے سوالوں کا جواب کہاں سے ملے گا؟ دھک دھک کرتے دل کو تسلی کون دے گا؟ سبزہلالی پرچم تھام کر باہر تو نکل آؤں گا مگر خوف اور بے یقینی کی فضا میں اسے کون لہرائے گا؟
جہاں اختیار اور طاقت اشرافیہ کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بن چکی وہاں کیسے اپنا اور دوسروں کا مستقبل بدلنے کی جدوجہد کروں۔
جہاں ماں کے جیسی ریاست کا نظام، اگر پسند ہو تو مجرم کو بھی سر پر بٹھا لے اور اچھا نہ لگے تو اہل ترین فرد کو بھی کھڈے لائن لگا دے، وہاں بدامنی، لاقانونیت اور ظلم کے منجدھار میں پھنسے اہل وطن آگے کیسے بڑھیں۔ بقول شخصے ’ملک میں لوگ غربت کے باعث خودکشی کر رہے ہیں۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ دریا وسمندر کچرے کا ڈھیر بن رہے ہیں۔ قدرتی وآبی وسائل ختم ہو رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی میں ہم دنیا کے اولین 5 ملکوں میں ہیں۔ ماں و بچے کی اموات میں ہم پہلے نمبر پر ہیں۔ جن دو ملکوں میں پولیو باقی ہے، ان میں سے ایک ہم ہیں۔ ہمارا پاسپورٹ پوری دنیا میں نیچے سے اولین نمبروں پر آتا ہے اور ہماری قیادت ایڈہاک ازم کی چھڑی پکڑے اندھے کی مانند ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔
دماغ تو اب یقین کر بیٹھا ہے کہ ’انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں‘ مگر کبھی کبھی دل میں کہیں امنگ سی جاگتی ہے کہ تاریکی جتنی بھی گہری ہو جائے، انجام سحر ہوتا ہے۔ اب سمجھ نہیں آتا کہ دماغ کی مانوں یا دل کے پیچھے چلوں۔ تم ہی کچھ کہو کہ ہم بتلائیں کیا۔
وسیم بریلوی شاید ایسے موقع کے لیے ہی کہہ گئے ہیں
رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائے گی
دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے