شہداء کے خاندانوں نے اپنے عزیزوں کی قربانیوں کی رویداد بیان کرتے ہوئے کہاکہ وطن کی خاطرشہداء کی عظیم قربانیوں کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا، جن کو آزادی ورثہ میں ملی ہو ان کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کوئی معمولی شے نہیں ہے، کبھی کبھی ہمیں یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہماری مسکراہٹوں کی قیمت کسی اور نے چکائی ہے۔
بیوہ، میجر منیب شہید نے اپنی رویداد بیان کرتے ہوئے کہاکہ آپ واپس آجائیں آپ کے بغیر دنیا بہت ادھوری ہے، مجھے آپ کی بہت یاد آتی ہے۔
اسی طرح بیوہ، سگنل مین سیدانورعلی شاہ شہید کہتی ہیں کہ آنسو جب بہنے لگتے ہیں تو رکتے نہیں ہیں جب رک جاتے ہیں تو ایسے رک جاتے ہیں کہ بندہ لاکھ کوشش کرے وہ بہتے نہیں ہیں۔
بیٹی، نائک خورشید احمد شہید نے کہاکہ جب بھی اکیلے بیٹھتی ہوتی ہوں تو یہی لکھتی ہوں کہ ابوبس ایک مرتبہ گلے لگالیں۔
بیوہ، سپاہی امجد علی شہید کہتی ہیں کہ اب تو ایسا لگتا ہے جیسے میں نے خواب دیکھا تھا۔
بیٹی، سپاہی محمد یوسف شہید نے کہاکہ مجھے دکھ ہوتا ہے تو مجھے ایسے لگتا ہیں کہ بابا ہمیں سن رہے ہیں کیونکہ شہید زندہ ہوتے ہیں۔
بیوہ، میجر منیب شہید کہتی ہیں کہ جب کوئی آفیسر شہید ہو جاتا ہے تو اس دن اس کا جہاد تو ختم ہو جاتا ہے لیکن اس کی فیملی کا جہاد اس دن سے شروع ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ جب بھی وہ قبرستان جاتی ہیں تو منیب سے بس یہی کہتی ہیں کہ آپ کے سارے خواب پورے ہو گئے لیکن آپ کی بیوی کے سارے خواب ادھورے رہ گئے ہیں۔
بیٹا، میجر منیب شہید کہتا ہے کہ میرے بابا نے پورے پاکستان کی حفاظت کی ہے۔
مزید پڑھیں
نائیک زاہد علی نے کہا کہ بلوچستان میں آپریشن کے دوران میری ایڑھی میں پانچ گولیاں لگی جس کی وجہ سے میری ایڑھی ٹوٹ گئی۔
نائیک عون علی کا کہنا ہے کہ فوج میں جب بندہ ہوتا ہے تو وہ ڈرتا نہیں ہے میں بھی شہادت کے لیے آیا تھا۔
سپاہی ناظم الدین نے کہاکہ ایک ٹانگ چلی گئی ہے لیکن دکھ نہیں ہے پوری جان بھی دیں گے۔
حوالدار محمد رسول کا کہنا ہے کہ کئی بار بھی جان چلی جائے تو اس بات کی ندامت نہیں ہے کہ اپنے ملک کے لیے قربانی دے رہے ہیں۔
بیوہ نائیک ندیم احمد نے کہاکہ شرپسندوں نے جو شہیدوں کے پتلے توڑے اور جلائے ہیں اس سے مجھے بہت دکھ ہوا ہے۔ ان کو کیا پتہ ہے کہ ہم فوجیوں اور آرمی کی وجہ سے رات کو سکون سے سوتے ہیں۔
نائیک زاہد علی نے کہاکہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں، پاکستان ہے تو ہم ہیں۔
لانس نائیک اخلاق حسین نے کہاکہ ہمارے چھوٹے بچے ہم سے پہلے تیار ہوتے ہیں فوج میں جانے کے لیے۔
نائیک وسیم اکرم کہتے ہیں کہ میں اس جذبہ کو جو مجھ میں ہے اپنے خاندان میں منتقل کرونگا۔
حوالدار محمد رسول نے کہاکہ ملک سے پیار نہ ہو تو کس سے ہوگا؟
بیوہ سگنل مین سید انور علی شاہ شہید نے کہاکہ وطن کی قربانی کے لیے ہم اپنے سب بچوں کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بیٹی سپاہی محمد یوسف شہید کہتی ہیں کہ میرا بیٹا آرمی افسر بنے اور اگر شہید ہو تو مجھے اس پر فخر ہوگا۔