تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے بڑھتے واقعات کی وجہ کیا ہے؟

منگل 15 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کے تعلیمی جامعات میں آئے روز طالبات کی طرف سے جنسی ہراسگی کے کیسز سامنے آرہے ہیں، جہاں یہ بڑھتے کیسز لمحہ فکریہ ہیں وہیں اس کی وجوہات بھی جاننا ضروری ہیں کہ آگاہی کے سبب یہ کیسز اب زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں یا پھر واقعی اس طرح کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔

اسلام آباد کی ایک بڑی یونیورسٹی کی طالبہ عالیہ (فرضی نام) نے بین الاقوامی تعلقات میں ایم فل کر رکھا ہے۔ انہوں نے اپنی روداد سناتے ہوئے بتایا کہ جب وہ ایم فل میں تھیسز کر رہی تھیں تو انہیں ایسے مسائل سے گزرنا پڑا جس کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

عالیہ کہتی ہیں کہ ’ظاہر ہے تھیسز آسان نہیں ہوتا، اس کے لیے آپ کو مسلسل اپنے سپروائزر کے ساتھ تعاون میں رہنا ہوتا ہے، مگر میرے سپروائزر مجھے چھوٹی سی چھوٹی بات بھی کلاس میں نہیں بتاتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ آپ اسٹاف روم میں تشریف لے آئیے گا اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہاں کوئی موجود نہیں ہوتا تھا اور وہ مجھے چُھونے کی کوشش کرتے تھے اور یہ سلسلہ یونہی شروع ہوا اور پھر وہ مجھے کالز کرتے تھے اور کہتے تھے کہ مجھ سے آکر ملو، جو بھی تھیسز سے متعلق پوچھنا ہے تب ہی پوچھنا‘۔

عالیہ نے اپنی بات کو بڑھاتے ہوئے کہ ’وہ میری زندگی کے مشکل ترین دن تھے کیونکہ نہ میں کسی کو بتا سکتی تھی اور نہ ہی میں فیل ہونا چاہتی تھی۔ شروع میں مجھے عجیب لگا مگر میں سوچتی تھی کہ شاید یہ میری غلط فہمی ہے اور وہ یہ کہنے لگے کہ اگر تمہیں اچھے نمبر لینے ہیں تو تمہیں مجھ سے ملنا ہوگا۔

عالیہ نے مزید بتایا کہ ’اس ساری صورتحال کے بعد میں بہت بیمار رہنے لگی تھی اور مجھے بے چینی اور گھبراہٹ ہونے لگی تھی مگر میں مجبور تھی اور کسی کو نہیں بتا سکتی تھی۔ ایک دن بہت مشکل سے غصے سے میں نے انہیں کہہ دیا کہ آپ نے مجھے فیل کرنا ہے توبیشک کردیں مگر اب میں آپ کے پاس نہیں آؤں گی، جس کے بعد میرے سپروائزر مجھے فیل ہونے کی دھمکیاں دیتے رہے مگر میں نے ان کے پاس نہ جانے کا فیصلہ کرلیا تھا‘۔

’ہم کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ وہ سینیئر ہیں‘

ایک سوال کے جواب میں عالیہ نے بتایا کہ ’جب میں بہت تنگ آگئی تو اپنے ایک اور پروفیسر کو ان کے بارے میں بتایا مگر انہوں نے یہ جواب دیا کہ بیٹا میں جانتا ہوں کہ آپ ایک بہت اچھی لڑکی ہو اور مجھے آپ پر یقین بھی ہے کہ آپ جو کہہ رہی ہیں وہ ٹھیک ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ وہ سینئر ہیں‘۔

دختر فاؤنڈیشن کی 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق انہیں 20,741 سے زیادہ شکایات موصول ہوئیں، جس میں حیران کن بات یہ تھی کہ 16981 شکایات مختلف یونیورسٹیوں کی طالبات کی طرف سے درج کرائی گئیں جس کا مطلب ہے کہ 82 فیصد یونیورسٹیوں سے موصول ہونے والی شکایات پروفیسرز اور لیکچرارز کی جانب سے طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے سے متعلق تھیں۔

دختر فاونڈیشن کے مطابق کچھ معاملات میں یونیورسٹی کی ہراساں کرنے والی کمیٹی کے ارکان بھی طالب علموں کو ہراساں کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں، اس لیے عام طور پر طالبات یونیورسٹی کی ہراساں کرنے والی کمیٹی کے پاس جانے سے ہچکچاتی ہیں۔

2023 میں رپورٹ ہونے والے واقعات

پاکستان اکثر خواتین کے لیے بدتر ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ پہلے تو خواتین کو صرف ملازمتوں کے دوران ہراسانی کے واقعات کا سامنا رہتا تھا مگر اب گزشتہ چند برسوں سے یونیورسٹیوں میں بھی اس طرح کے کیسز معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں جو یقیناً خواتین کو تعلیم جاری رکھنے میں رکاوٹ بنتے ہوں گے۔

کچھ حالیہ کیسز کی بات کی جائے تو21 جولائی کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ہونے والے واقع نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ غازی یونیورسٹی، ڈیرہ غازی خان میں 2 یونیورسٹی پروفیسرز کو ہراسانی کے کیسز میں معطل کیا گیا۔

4 اگست کو سوات کی ایک یونیورسٹی میں بھی ایک ایسا ہی واقع پیش آیا جس میں طالبات اور خواتین اساتذہ نے رجسٹرار امتیاز علی کے خلاف حراسانی کی شکایت کی جس پر گورنر خیبر پختونخواہ نے معاملہ صوبائی محتسب کو انکوائری کے لیے بھیج دیا۔ یاد رہے کہ صوبائی محتسب کے خط میں ان طالبات اور خاتون ٹیچر کے موبائل نمبر موجود ہیں۔ 2023 میں ہی سندھ  کی ایک یونیورسٹی میں بھی طالبات کو ہراساں کرنے کا واقع سامنے آیا۔

’بچیاں اب تعلیمی اداروں میں بھی محفوظ نہیں رہیں‘

عبدالباسط اسلام آباد کے رہائشی اور سرکاری ملازم ہیں اور ان کے 3 بچے ہیں۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کی بڑی بیٹی بارہویں جماعت کی طالبہ ہیں اور اب ان کو اس کے لیے کسی اچھی یونیورسٹی کا انتخاب کرنا ہے۔ عبد الباسط کہتے ہیں کہ حالیہ کچھ واقعات نے انہیں ڈرا دیا ہے اور وہ پریشان ہیں کہ اب بچیاں تعلیمی اداروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔

عبدالباسط کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیٹی سے متعلق بہت خواب دیکھ رکھے ہیں کہ وہ پڑھ لکھ کر اپنا مستقبل سنوارے، مگر اب دل بہت ڈرتا ہے کہ اسے کہاں داخلہ دلوایا جائے جہاں وہ محفوظ ہو کیونکہ اب تو آئے روز ہراسانی کے مختلف واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ ’میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس رسوائی اور اذیت سے بہتر ہے کہ بس 12 جماعتیں کافی ہیں کیونکہ یہ معاشرہ خواتین کے لیے بہت تلخ ہے اور پتہ نہیں آج کل کے اساتذہ کو کیا ہوگیا ہے۔ ہمارے زمانے میں تو اساتذہ والدین کی طرح تربیت کرتے تھے۔ یچ

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہراسمنٹ پالیسی کیا ہے؟

یہ پالیسی ہائر ایجوکیشن کمیشن آرڈیننس، 2002 کے تحت ایچ ای سی کو دیے گئے اختیارات کے مطابق بنائی گئی ہے اور یہ ملک کے تمام اعلٰی تعلیمی اداروں پر لاگو ہوتی ہے، چاہے وہ سرکاری ہوں یا نجی۔

ایچ ای سی ان تمام اعلٰی تعلیمی اداروں کے خلاف اس پالیسی کی خلاف ورزی کرنے پر کارروائی کرسکتا ہے۔ یہ پالیسی پاکستان کے ورک پلیس ہراسمنٹ ایکٹ 2010 کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور اس کی روشنی میں بنائی گئی ہے۔ اس پالیسی کے تحت کسی بھی قسم کی زبانی یا تحریری مواصلت یا جنسی نوعیت کا جسمانی برتاؤ یا جنسی طور پر توہین آمیز رویہ شامل ہے۔ اس طرح کا کوئی بھی رویہ کسی کی جانب سے بھی ناقابلِ قبول ہے۔

اس پالیسی کا مقصد جنسی ہراسانی کو روکنا ہے اور جہاں ضروری ہو جنسی ہراسانی کی شکایات پر فوری، منصفانه، انصاف کے ساتھ اور تمام متعلقه فریقوں کی رازداری رکھتے ہوئے کارروائی کرنا ہے۔

کیا یہ پالیسیاں واقع انصاف فراہم کرتی ہیں؟

اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد کی ایک اور یونیورسٹی کے ایک لیکچرار کا کہنا تھا کہ ہراسگی کے واقعات بہت زیادہ شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور یہ سچ ہے کہ پروفیسرز کی جانب سے ایسی حرکات بڑھتی جا رہی ہیں جو لمحہ فکریہ ہے، کیونکہ بہت ساری خواتین انتہائی مشکلات کاٹ کر یونیورسٹیوں تک پہنچی ہوتی ہیں اور ان حالات میں پھر یونیورسٹیوں میں ایسے واقعات پیش آنے لگیں گے تو ظاہر ہے ان کے لیے پڑھائی جاری رکھنا مشکل ہے، مگر یہاں ایک اور بات واضح ہونی چاہیے کہ خواتین طالبات کی جانب سے بھی اکثر ٹیچرز کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس پر کوئی بات نہیں کرتا۔

انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر یونیورسٹی کی اپنی پالیسیاں ہیں حتٰی کہ ہر ڈیپارٹمنٹ کی بھی اپنی پالیسی ہوتی ہے جو ایچ ای سی کے اصولوں کے مطابق ہوتی ہے، مگر یہ پالیسیاں صرف نام تک ہی ہوتی ہیں، جن پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اوّل تو خواتین اپنی عزت کو بچانے کے لیے شکایات درج نہیں کرواتی اور جو درج کروا دیتی ہیں ان کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو افسوسناک بات ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اس طرح کے واقعات سے تب ہی چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے جب منصفانہ طور پر فیصلہ کیا جائے اور اس طرح کے لیکچرار کو یونیورسٹی سے نکال دیا جائے تاکہ ایسی سوچ رکھنے والے باقی تمام افراد کو ڈر ہو کہ ان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ ابھی ہمارا مسئلہ ہی یہ ہے کہ شکایت کنندہ کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور اساتذہ کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی، مگر جب تک شدید کارروائیاں نہیں ہوں گی یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔

یونیورسٹیوں میں ہراسانی کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟

سرگودھا یونیورسٹی کے ایک پروفیسر طاہرعمیر نے اس حوالے سے کہا کہ ان کے خیال میں اس طرح کے واقعات بڑھنے کی کچھ اہم وجوہات ہیں، جن میں سب سے پہلی اور اہم وجہ اساتذہ کے اختیارات سے جڑی ہے کیونکہ یونیورسٹیوں میں امتحانی نظام میں زیادہ تراختیارات اساتذہ کے پاس ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر مڈ ٹرمز کے پیپرز بنانا، فائنل امتحانات کے پیپرز چیک کرنا اور مارکس دینے کا اختیار صرف اساتذہ کو حاصل ہے اور یہیں سے سی جی پی اے کی دوڑ میں یا تو اساتذہ لالچ دیتے ہیں یا اسٹوڈنٹ خود یہ موقع فراہم کرتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات طالبہ و طالبات خود یہ موقع اساتذہ کو اس طرح فراہم کرتے ہیں کہ پروفیشنل ای میلز کے بجائے آف ٹائم (رات کے وقت) سوالات پوچھتے ہیں، جس سے ان کو موقع ملتا ہے۔ یہاں یہ کہنے کا ہرگز مقصد نہیں کہ اس طرح اساتذہ کو ہراسگی کی اجازت مل جاتی ہے، مگر چونکہ استاد بااختیار ہے لہٰذا ذمہ داری اسی پر لاگو ہوگی کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کرے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں باقاعدہ ریگولر اسٹاف نہ ہونے کی بنیاد پر جونیئر وزٹنگ فیکلٹی ہائر کی جاتی ہے جو اپنی ڈگری کے فوری بعد شارٹ ٹرم بیسز پر جوائن کرتے ہیں، لیکن ان کو کوئی پیشہ وارانہ تربیت نہیں دی جاتی اور نہ ہی وہ اتنے سمجھدار ہوتے ہیں، اور زیادہ تر وزٹنگ فیکلٹی میں موجود افراد طلبہ سے اس قدر فری ہوجاتے ہیں کہ ان کو ہراسگی کا موقع مل جاتا ہے۔

چوتھی وجہ جو بڑی حیران کن ہے لیکن حقیقت بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں کسی خاتون کو اپنے ہم عصر کسی اسٹوڈنٹ کے ساتھ بیٹھنے یا ہنستے ہوئے دیکھ لیا جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ شاید اب یہ ہراسگی کے قابل ہے، پھر اس کو بلیک میل کیا جاتا ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ فلاں کے ساتھ تو بہت کھل کھلا کے باتیں کررہی تھی تو ہمارے ساتھ کیوں نہیں؟

’اس طرح کے تعلقات گولڈ میڈل حاصل کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں‘

خیبر پختونخوا کی ایک یونیورسٹی کی ایک طالبہ حرا احمد نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ طالبات پروفیسرز کے ساتھ جان بوجھ کر اس طرح کے تعلقات قائم کرتی ہیں تاکہ وہ اچھی جی پی اے حاصل کرسکیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’میں اور میری ایک کلاس فیلو کی جی پی اے تقریباً برابر چل رہی تھی، کبھی وہ ٹاپ کرتی تو کبھی میں، مگر اس کے بعد مسلسل 2 سمسٹرز میں وہ مجھ سے پیچھے رہ گئی اور اس کی جی پی اے میرے مقابلے میں کم ہوگئی۔ اگلے سمسٹر کے دوران ایک ٹیچر کے ساتھ اس کی دوستی گہری ہوتی چلی گئی اور وہ ان کے لیے ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی تحفہ لا رہی ہوتی تھی‘۔

حرا نے بتایا کہ ’اس دوستی کی بنیاد پر سر نے اسے ٹاپ کروانے کے چکر میں مجھے ایک اسائنمنٹ میں صفر نمبر دے دیے، جس پر سر سے بات کی گئی تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے آپ کی اسائمنٹ کا کچھ خاص مزہ نہیں آیا۔ بہت بحث کرنے کے بعد جب انہیں یہ کہا کہ چلیں کانسپٹ اچھا نہیں لگا مگر کم از کم ٹیکنیکل چیزوں کو مدِنظر رکھنے پر تو نمبر ملنے چاہیے جس کے بعد انہوں نے اسائنمنٹ پر 4 نمبر دیے حالانکہ میرا اسائمنٹ بہت اچھا تھا جبکہ میری اس کلاس فیلو کو پورے 10 نمبر ملے اور 2 پوائنٹس سے اس کی سی جی پی اے مجھ سے اوپر چلے گئی اور یوں اسے گولڈ میڈل ملا، جس پر مجھے بہت دکھ ہوا کیونکہ میں نے بہت محنت کی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp