سابق حکومت نے جاتے جاتے ایران اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ اقتصادی معاہدے کیا۔ سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایرانی ہم منصب ڈاکٹر حسین امیر عبداللہیان سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان 5 سالہ تجارتی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں دو طرفہ تجارت کا ہدف 5 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔
کیا دو طرفہ تجارتی معاہدے سے بلوچستان کی تجارت میں تیزی آئے گی یا نہیں۔ اس معاملے پر سابق صدر ایوان صنعت و تجارت فدا حسین نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان ہر سال اربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ پاکستان ایران کو چاول، مصالہ جات، موسمی پھلوں سمیت دیگر اشیائے خورونوش برآمد کرتا ہے جبکہ ایران ایل پی جی، سیمنٹ، سریا، پیٹرولیمکل اور اشیائے خوروونوش درآمد کرتا ہے۔
فدا حسین نے بتایا کہ حالیہ معاہدے سے بھی صوبے کی تجارت پر کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں ہوں گے جس کی وجہ ریاستی اداروں کی جانب سے تاجروں کے ساتھ تعاون نہ کرنا ہے۔ تاجروں کو مکمل کوائف کے باوجود سرکاری ملازمین کو رشوت دے کر اپنا کنٹینر پاس کروانا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دوسری جانب حکومت ہر سال تجارت کے لیے ایک مخصوص ہدف مقرر کرتی ہے لیکن تجارت میں بینک کے ذریعے رقم کی منتقلی نہ ہونے کی وجہ سے کبھی مقرر کردہ ہدف کو حاصل نہیں کیا جاتا۔ صوبے میں زیادہ تر تاجر دوسرے غیر قانونی ذریعے سے رقم منتقل کرتے ہیں جس ہے معیشت کو فائدہ نہیں پہنچتا۔
مزید پڑھیں
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تاجروں کی جانب سے یہ تجویز دی گئی تھی کہ ایران اور افغانستان سے بارٹر سسٹم کے ذریعے تجارت کی جائے جس سے معیشت کو براہ راست فائدہ ہوگا۔ اس کے علاؤہ حکومت اگر ون ونڈو آپریشن کے ذریعے سرحدی تجارت کا سلسلہ شروع کرے تو نہ صرف تجارت میں بہتری آئے گی بلکہ ملکی معیشت بھی مستحکم ہوگی۔
سرحدی تجارت سے متعلق محکمہ کسٹم بلوچستان کے ایک آفیسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ حالیہ معاہدے کی مد میں اب تک تجارت کا سلسلہ شروع نہیں ہو سکا۔ اس کے علاؤہ صوبے میں غیر قانونی تجارت کا حجم قانونی تجارت سے کئی گنا زیادہ ہے جس کی وجہ سے تجارتی ہدف حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ کسٹم نے تاجروں کو یہ تجویز بھی دی کہ وہ ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کا سلسلہ شروع کر دیں لیکن تاجروں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔
بلوچستان کی مارکیٹوں میں اس وقت بڑے پیمانے پر ایرانی اشیاء موجود ہیں جن کی قیمت پاکستانی اشیاء سے کئی گناہ کم ہیں تاہم اگر ایران سے براہ راست قانونی تجارت کا سلسلہ فعال ہو جائے تو صوبے میں جہاں مہنگائی کی شرح کم ہو گی وہیں روزگار کے مواقع میں بھی اضافہ ہوگا۔