افغانستان میں طالبان کی حکومت کے 2 برس اور مستقبل کا خاکہ

منگل 15 اگست 2023
author image

سلمان جاوید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

2 برس پیشتر جب امارت اسلامیہ نےافغانستان میں اقتدار حاصل کیا تو افغان تاریخ ایک نیا رُخ اختیار کر گئی ۔ آج جب امارت اسلامیہ کو افغانستان کا اقتدار سنبھالے دو برس بیت چکے ہیں، یہ گھڑی اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ افغانستان کو درپیش چیلنجز،مستقبل کی پیش بندیوں اور آگے کی راہوں پر غور کیا جائے۔

موجودہ حالات میں افغانستان کو عالمی سطح پر درپیش مسائل میں ایک بڑا مسئلہ مرکزی حکومت میں تمام دھڑوں کی عدم موجودگی ہے۔ ملک کی متنوع نسلی، مذہبی اور سیاسی گروہ بندیاں بعض اوقات مختلف سماجی ضروریات کو پورا کرنے میں حائل رہتی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ، افغان سرزمین پر دہشت گرد گروہوں کا دوبارہ سر اٹھانا افغانستان کی پریشانی میں ایک اور اضافہ ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ داعش اور اس جیسے دیگر دھڑے امریکی انخلاء کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جانے والی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح تحریک طالبان پاکستان جیسے دہشتگرد گروہ بھی افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں پاک افغان تعلقات میں کشیدگی ایک معمول بن کر رہ گئی ہے۔

 جولائی 2023 میں، پاکستان فوج کے سپہ سالارجنرل عاصم منیر نے اپنے کوئٹہ کے دورے کے دوران عسکریت پسندوں کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے حالیہ دو حملوں میں 12 فوجی جوانوں کی شہادت کے بعد ’’موثر ردعمل‘‘ کا بھی انتباہ دیا۔

جنرل عاصم منیر نے امارت اسلامیہ افغانستان پر زور دیا کہ وہ دوحہ معاہدے کی پاسداری کرے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ جہاں امارت اسلامیہ افغانستان میں اپنی حکمرانی کے دو سال مکمل کر رہا ہے وہیں پاکستان میں حال ہی میں افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ٹی ٹی پی صوبہ خیبر پختونخواہ کے بعد اب بلوچستان میں بھی سرگرم ہو گئی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ گروہ نہ صرف افغانستان کے استحکام میں خلل ڈالے ہوئے ہیں بلکہ عالمی اور علاقائی سلامتی کے لیے بھی مستقل خطرہ اورعلاقائی عدم استحکام کو دوام بخشتے ہیں۔

افغانستان میں امریکہ کے انخلاء اور امارتِ اسلامیہ کی حکومت کے قیام کے بعد سے انسانی حقوق کی صورتحال ہنگامی رُخ اختیار کر چکی ہے۔ ان حالات نے بین الاقوامی مداخلت کے لئے بھی راہ ہموار کی ہے۔ بنیادی انسانی ضروریات، صحت ، تعلیم اور صاف پانی تک محدود رسائی سے دوچار آبادی کی ایک بڑی تعداد سنگین حالات میں پھنس چکی ہے۔ یہ حالتِ زار مصائب کو کم کرنے اور طویل مدتی بحالی کی راہ ہموار کرنے کے لیے فوری کارروائی کے متلاشی ہیں۔

غیر ملکی امداد کی معطلی اور معاشی سرگرمیوں میں خلل کے باعث معاشی غیر یقینی بہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔ یقیناًاس کے اثرات نے آبادی کو بھی بڑے پیمانے پر متاثرکیا ہے۔بے روزگاری کی بلند شرح اور بنیادی سہولیات تک رسائی میں کمی کے ساتھ معاشی جدوجہد نے موجودہ حالات کو مزید خرابی سے دوچار کیا ہے۔

اس سب کے باوجود اگست 2021 کے بعد سے بہت سے شعبوں میں مثبت پیشرفت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ افغان حکومت نے، بین الاقوامی حمایت کے ساتھ داعش کے ٹھکانوں کے خلاف نہ صرف محدود پیمانے پہ کاروائیاں کی ہیں بلکہ اقتصادی محاذ پر چینی سرمایہ کاری، روس کے ساتھ ماہانہ درآمدات اور برآمدات میں ایک سو بیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاک افغان دوطرفہ تجارت میں 79 ملین ڈالر کا افغانستان کی طرف تجارتی اضافہ، انسداد منشیات اور دس سے ذائد ممالک میں امارتِ اسلامیہ کے سفارت خانوں کی بحالی اور سولہ سے زائد ممالک کا افغانستان میں سفارتخانوں کو بحال کرنا بھی خوش آئند ہے۔

افغانستان میں امن، استحکام اور ترقی کے لیے پاکستان کی خواہش ہمیشہ سے واضح ہے۔ افغانستان اور پاکستان کا تعلق باہمی تعاون کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ تاہم افغان حکومت کو بین الاقوامی شناخت کے حصول، ہمسایہ ممالک کے خدشات دور کرنے، مختلف دھڑوں اور سیاسی گروپوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے اور اندرونی تقسیم کے خاتمے کے لیے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

افغانستان میں کسی بھی بڑے انسانی بحران کو پیدا ہونے سے روکنے کی اجتماعی ذمہ داری سب سے زیادہ موجودہ افغان حکومت پر عائد ہوتی ہے اور اس ضمن میں ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ ڈی فیکٹو حکومت کی بین الاقوامی شناخت اور پسماندگی افغان عوام کو درپیش مشکلات کو بڑھا سکتی ہے۔ پاکستان، ایک جغرافیائی گیٹ وے کے طور پر بہتر اقتصادی تعاون اور روابط کی راہیں پیش کرتا ہے، جس سے دوطرفہ ترقی کے امکانات روشن ہیں۔

 جیسا کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلاء اور امارتِ اسلامیہ کی حکومت کے قیام کی دوسری برسی منائی جا رہی ہے، افغانستان کے لیے بین الاقوامی برادری کا عزم اہم ہے۔ رکاوٹیں بہت زیادہ ہیں، پھر بھی مشترکہ کوششوں کے ذریعے افغانستان اور اس کے شہریوں کا روشن مستقبل ممکن ہو سکتا ہے۔ اس قوم کی بحالی کے راستے پر استقامت، سلامتی اور خوشحالی کے لیے کوششوں کو آگے بڑھانے، حمایت میں ثابت قدم رہنا ضروری ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

لکھاری پاک افغان یوتھ فورم کے ڈائریکٹر جنرل ہیں اور علاقائی و بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp