پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں موسمی تبدیلیوں کے باعث سیاحتی سر گرمیاں متاثر ہو رہی ہیں اور بے وقت بارشیں، سیلابی صورتحال اور لینڈ سلائیڈنگ وہ عناصر ہیں جو خصوصاً اس مرتبہ ملک میں سیاحت کے فروغ میں حائل ہیں۔
خوش قسمتی سے پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے وہ سارے لوازمات رکھتا ہے جو دنیا کے کسی بھی ملک سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں رواں رس گزشتہ سال کے مقابلے میں سیاحوں کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے جس کے بیچھے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والی تباہ کاریوں کو ٹھیک کرنے میں مہنیوں اور برسوں لگ جاتے ہیں اورجہاں سیاح اپنے تحفظ کے لحاظ سے بے یقینی کا شکار ہوں تو پھر وہ ایسی جگہ کا رخ کیوں کریں گے کیوں کہ ہر آنے والا سیاح خوبصورت مناظر کے ساتھ ساتھ انفرا اسٹرکچر اور اپنے تحٖفظ کو بھی مد نظر رکھتا ہے۔
پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2013 میں پاکستان میں بین الااقوامی سیاحوں کی تعداد 9 لاکھ 24 ہزار تھی جب کہ سنہ 2019 میں یہ تعداد تجاوز کر کے 35 لاکھ 80 ہزار تک ہوگئی تھی جس کے بعد سی این این اور فوربس میگزین نے پاکستان کی سیاحت کو مزید اجاگر کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2020 میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے بین الاقوامی آمد کم ہوگئی کیوں کہ اس سے سیاحتی معیشت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔
پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس لحاظ سے سنہ 2021 سے بہتری آنا شروع ہوئی یے اور سال 2022 میں بین الااقوامی سیاحوں کی تعداد 19 لاکھ ایک ہزار تک ہوگئی۔ واضح رہے کہ رواں سال کے اعدادوشمار اب تک دستیاب نہیں ہیں۔
پوری دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے مگر بہت سے ممالک نے ان موسمیاتی تبدیلیوں کے باوجود سیاحت کے فروغ کے حل تلاش کر لیے ہیں لحاظہ پاکستان کو بھی ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جو سیاحت کے فروغ کے راستے میں رکاوٹوں کو ختم کرے۔
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے ترجمان آفتاب رانا کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث سیاحت پر واضح اثرات پڑ رہے ہیں اور یہاں قدرتی آفات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
آفتاب رانا نے کہا کہ گزشتہ برس سوات میں آنے والا سیلاب اس کی واضح مثال ہے جس نے انفرا اسٹرکچر تباہ کرکے رکھ دیا اور رواں برس بھی اسکردو اور دیگر جگہوں پر کچھ ویسا ہی سلسلہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان قدرتی آفات سے تباہ ہونے والے انفرا اسٹرکچر کو ٹھیک کرنے میں سالوں لگ جاتے ہیں کیوں کہ حکومت کے پاس اتنے فنڈز نہیں ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ پھر متاثرہ علاقوں میں سیاحوں کی آمد کم ہوجاتی ہے۔
رواں برس سیاحوں کی تعداد میں تقریباً 40 فی صد کمی ہوئی
آفتاب علی نے کہا کہ رواں برس سیاحوں کی تعداد کم ہوئی ہے جس کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کا غیر متوقع سلسلہ جس سے عین سیاحتی سیزن کے درمیان سڑکیں بند ہوگئیں۔ انہوں نے بتایا کہ رواں برس سیاحوں کی تعداد میں تقریباً 40 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب سیزن ہی 3 ماہ کو ہو اور اس میں بھی 10 سے 15 دن سڑکیں بند ہوجائیں تو پھر کچھ نہیں بچتا اور پھر انفرا اسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچے تو اس سے جن لوگوں کا ٹور متاثر ہوتا ہے ان کے دماغ میں کافی عرصے تک یہی رہتا ہے کہ پل اب بھی ٹوٹا ہوا ہوگا اور سڑکیں بلاک ہوں گی۔
آفتاب علی نے کہا کہ اس تمام صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت اور اسٹیک ہولڈرز کو مل کر جلد از جلد طویل المیعاد پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے کیوں کہ آنے والے وقتوں میں موسمیاتی تبدیلیاں مزید بڑھیں گی لحاظہ اس سے نمٹنے کے لیے ماحول دوست پالیسیاں اپنانے کی بے حد ضرورت ہے۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں بلا وجہ درختوں کی کٹائی اور تعمیراتی کام پر پابندی لگائی جانی چاہیے اور اس کے علاوہ پانی کے ذخائر محفوظ کرنے، دریا کے کنارے ہوٹلوں بنانے پر سختی سے پابندی عائد کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
ٹرپ ٹریلز پاکستان کمپنی کے سی ای او عظمت اکبر نے پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے حوالے سے بتایا کہ گزشتہ برس آنے سیلاب کے باعث کمراٹ اور سوات میں جو تباہی ہوئی اس کی وجہ سے رواں برس سیاحوں کا وہاں پہنچنا مشکل ہو گیا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ رواں برس بھی جولائی تک سیزن ٹھیک چل رہا تھا مگر بارشوں کا جو سلسلہ شروع ہوا اس کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے اور سیاحوں کی تعداد میں تقریباً 35 فی صد تک کمی ہوئی۔
ماحولیاتی تبدیلیاں پاکستان کا حسن نگل رہی ہیں
مزید بات کرتے ہوئے عظمت اکبر کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں شمالی علاقوں کا حسن تباہ کر رہی ہیں جس کا سیاحوں پر بہت برا اثر پڑسکتا ہے۔ انہوں نے کمراٹ، ناران اور کاغان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کچھ سال قبل تک جولائی کے مہینے میں بھی ٹھنڈ محسوس ہوتی تھی مگر اب سیاحوں کی جانب سے پنکھے اور اے سی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے علاقے استور کے قریب راما جھیل تقریباً ختم ہو چکی ہے اس لیے اب سیاح وہاں کا رخ ہی نہیں کرتے اور اسی طرح کمراٹ میں جاز بانڈی کے قریب پہاڑی علاقے میں ایک خوبصورت سا جنگل تھا لیکن اب وہ اسپاٹ بالکل ختم ہو چکا ہے لحاظہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں پاکستان کا حسن نگل رہی ہیں۔
سید علی رضا نقوی ایک سولو ٹریلولر اور ٹور آپریٹر کمپنی کے مالک ہیں۔ انہوں نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں تو الگ بات ہے ہمارے ہاں جو لوگ شمالی علاقوں میں جاتے ہیں وہ خود بھی بہت تباہی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس بہت خوبصورت جگہیں ہیں جنہیں استعمال کرتے ہوئے زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے لیکن ہم ایسے علاقوں کی سیر کو جاتے ہیں تو بڑی بڑی گاڑیاں لے جاتے ہیں جن کے باعث وہاں کا ماحول متاثر ہوتا ہے۔
سید علی رضا نقوی نے بتایا کہ بیرونی ممالک میں ایسی جگہوں پر گاڑیوں کی اجازت نہیں دی جاتی کیوں کہ ان گاڑیوں سے پیدا ہونے والے اسموگ اور انجن کی ہیٹ سے ماحول کو نقصان پہنچتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ قدرتی آفات ہر جگہ آتی ہیں مگر اس کی وجہ سے سیاحت کو متاثر نہیں ہونے دینا چاہیے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس حوالے سے کام بھی ہو رہا ہے جیسا کہ خیبر پختونخواہ کی ٹورسٹ پولیس جو سیاحوں کو ڈرائیونگ سے لے کر موسم کی صورتحال تک ہر قسم کی معلومات کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا بلکل نہیں ہے کہ پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے اور سیاحت کو فروغ دینے کے لیے ادارے موجود نہیں، ہاں مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ادارے اپنا کام ٹھیک سے نہیں کرتے۔
ان کا کہناتھا کہ سیاحت پر نکلتے وقت لوگوں کو کسی گائیڈ کمپنی سے رابطہ کر کے تمام تر ضروری معلومات حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ مشکلات سے بچ سکیں اور ٹور سے ٹھیک طرح سے لطف اندوز ہوسکیں۔
قدرتی آفات سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
عظمت اکبر کہتے ہیں کہ پاکستان میں پالیسیوں کے نام پر صرف باتیں ہی کی جاتی ہیں اور یہاں صرف کانفرنسز اور سیمنار ہی ہوتے ہیں جن میں بہت بڑی بڑی باتیں ہوتی ہیں مگر عمل کسی ایک بات پر بھی نہیں ہوتا جس کے باعث غیر ملکی سیاح تو دور کی بات پاکستانی بھی سیاحت کے لیے آنے سے کتراتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شمالی علاقہ جات میں جس طرح تیزی سے تعمیراتی کام ہو رہا ہے اور جنگلات کاٹے جا رہے ہیں اس کے بعد صورتحال بدتر ہوسکتی ہے لیکن اگر بروقت انتظامات کر لیے جائیں تو آنے والی مزید تباہیوں سے بچا جا سکتا ہے۔