نواز شریف ستمبر میں پاکستان نہیں آئیں گے؟

جمعرات 17 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نواز شریف 19 نومبر 2019 کو علاج کی غرض سے لندن روانہ ہوئے تھے، قریباً 4 سال ہونے کو ہیں مگر نواز شریف علاج کروا کے واپس پاکستان نہیں آئے۔ تاہم اب پارٹی کے تمام قائدین نواز شریف کی واپسی کی ڈیڈ لائن اپنے طور پر دے رہے ہیں مگر ابھی تک نواز شریف اور مریم نواز کی طرف سے ابھی تک کوئی اعلان نہیں کیا گیا کہ وہ کب کس مہینے میں پاکستان میں ہوں گے۔

وی نیوز کو مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رہنما نے بتایا کہ ابھی تک سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبرز کے ساتھ نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی ہے نہ ہی نواز شریف نے پارٹی کے لوگوں کو بتایا کہ وہ کب پارٹی کو پاکستان میں دستیاب ہوں گے ۔سینئر رہنما نے نام نہ ظاہر کی شرط پر بتایا کہ نواز شریف کا ستمبر کے مہینے میں پاکستان آنا مشکل ہے کیونکہ جب وہ پاکستان آئیں گے تو انہیں فوری جیل بھیج دیا جائے گا۔

نواز شریف اس وقت 74 سال کے ہیں، وہ ذیابیطس کے مریض ہیں، دل کی 2 سرجری اور متعدد بیماریوں میں مبتلا ہیں ان کے لیے اس حالت میں جیل کاٹنا مشکل ہوگا۔ نوازشریف کو 2020 سے اسلام آباد ہائیکورٹ نے مفرور قرار دیا ہوا ہے، اس لیے انہیں عدالت کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہوں گے اور عدالت کو فیصلہ کرنے دیا جائے گا کہ آیا انہیں جیل بھیجا جائے گا یا انہیں نظر بندی میں اپنی سزا بھگتنے کی اجازت دی جائے گی۔

جب نئے چیف جسٹس آئیں گے اس کے بعد ماحول دیکھا جائے گا اگر ماحول سازگار ہوا تو نوازشریف پاکستان میں الیکشن کی کمپین کرتے ہوئے دکھائی دیں گے، ستمبر کے مہینے میں نوازشریف کا آنا مشکل ہے کیونکہ کچھ قانونی پیچیدگیاں ہیں جن پر مشاورت کی جا رہی ہے۔

قانونی ٹیم اور سینئر رہنما جلد لندن جائیں گے

لیگی ذرائع کے مطابق نواز شریف سے ملنے اور مشاورت کے لیے کچھ ماہر قانون اور پارٹی کے سینئر عہدیدار جمعے کے روز یا اگلے ہفتے لندن روانہ ہوں گے۔ سینئر رہنماؤں میں خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ، رانا تنویر، اعظم نذیر تارڑ، اسحاق ڈار اور پرویز رشید شامل ہوں گے، ان ناموں میں رد و بدل ہو سکتاہے لیکن ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق پارٹی کے یہ لوگ جا رہے ہیں، جو نواز شریف سے واپسی کی حتمی تاریخ پر بات کریں گے۔

سینئر رہنما نے بتایا کہ نواز شریف کی واپسی الیکشن تاریخ سے بھی جوڑی ہوئی ہے کہ پاکستان میں الیکشن کب ہوں گے۔ اگر فروری یا مارچ میں الیکشن ہوں گے تو نواز شریف ستمبر میں پاکستان نہیں آئیں گے۔ نواز شریف اپنی واپسی کی تاریخ کا اعلان خود کرنا چاہتے ہیں۔ واضع رہے کہ پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت میں نوازشریف کی واپسی کی مختلف رہنما مختلف تاریخوں کا اعلان کرتے رہے ہیں لیکن کسی کی بھی دی گئی تاریخ ابھی تک سچ ثابت نہیں ہوئی۔

نواز شریف کے استقبال کی تیاریاں جاری ہیں

نواز شریف کی ممکنہ وطن واپسی کے حوالے سے استقبال کی تیاریوں کی نگرانی مریم نواز نے خود سنھبالی ہوئی ہیں، مریم نواز نے ہدایت کی ہے کہ قریباً ایک لاکھ لوگ ایئر پورٹ پر پہنچنے چاہئیں۔ اسکے لیے پارٹی کے عہدیداران، ورکرز اور کارکنان کی مالی معاونت بھی کی جائے تاکہ پارٹی کے لوگ استقبال کی تیاریاں کر سکیں۔

چند ہفتے قبل لاہور میں مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کے زیر صدارت اجلاس ماڈل ٹاؤن میں ہوا تھا جس میں پارٹی کے ڈویژنل صدور، سیکریٹریز، اضلاع کے صدور و سیکریٹریز، ایم این ایز اور ٹکٹ ہولڈرز نے شرکت کی تھی۔

اجلاس میں نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے تیاریوں کی تجویز مانگی گئی تھی اور ہر ایم پی اے اور ایم این ایز کو اپنے حلقے سے 500 سے 1000 بندہ ساتھ لے کر آنے کی ہدایت کی گئی لیکن اس میٹنگ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ نواز شریف لندن سے پاکستان واپسی پر کس شہر میں اتریں گے۔

دوسری جانب فیصل آباد کے ڈویژنل صدر حاجی اکرم انصاری کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ پارٹی کے تمام عہدیدار نواز شریف کے استقبال کی تیاریاں مکمل کریں، قافلے لاہور ایئر پورٹ کی جانب جائیں گے اس نوٹفکیشن میں بھی نواز شریف کی واپسی کی تاریخ درج نہیں، البتہ کس شہر میں قافلوں نے استقبال کے لیے پڑاؤ ڈالنا ہے اسکا ذکر ضرور کیا گیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل پنجاب اویس لغاری کی جانب سے نواز شریف کی ممکنہ وطن واپسی پر ان کے استقبال کی تیاریوں کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے نواز شریف کی وطن واپسی کی تاریخ کا اعلان جلد کیا جائے گا لہٰذا ضلعی سطح پر پارٹی کے عہدیداران، یونین کونسل لیول کے عہدیداران اپنی تیاریاں مکمل رکھیں جب تاریخ کا اعلان کیا جائے تو لیگی ورکرز،کارکن اور رہنما بڑی بڑی ریلیوں کی شکل میں تعین کردہ شہر پہنچیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp