سندھ کے ضلعے خیرپور کے علاقے رانی پور کی ایک حویلی میں مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والی کمسن ملازمہ فاطمہ کے ساتھ کام کرنے ایک اور خاتون کا بیان منظر عام پر آیا ہے جس نے حویلی میں ملازمین کے ساتھ مالکان کے رویے کے حوالے سے انکشافات کیے ہیں۔
یاد رہے کہ نوشہروفیروزکےرہائشی ندیم علی کی بیٹی کے جسم پرتشدد کے نشانات کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں جس کے بعد الزام عائد کیا گیا تھا کہ پیر اسد شاہ کی حویلی میں کام کرنے والی 10 سالہ فاطمہ مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنائی گئی جس سے اس کی جان چلی گئی۔
منظر عام پر آنے والی ویڈیوز کے بعد پولیس نے ایکشن لیتے ہوئے گزشتہ روز پیر اسد شاہ کو حراست میں لے لیا تھا۔ خیرپور پولیس کی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بچی کے بارے میں والدین کی جانب سے اطلاع ملی تھی کہ ان کی بیٹی کی پراسرار موت ہوئی ہے اور یہ کہ بچی کی تدفین بھی ہوچکی ہے۔
کیس میں نامزد پیراسد شاہ کو جوڈیشل مجسٹریٹ سوبھوڈیرو کی عدالت نے جمعرات کو 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پرپولیس کے حوالے کیا جب کہ سندھ ہائی کورٹ سکھر نے اسی کیس میں ملزم کی بیوی ملزمہ حنا شاہ کی 7 روز کے لیے ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی۔ پولیس نے عدالت سے بچی کی قبرکشائی کی اجازت طلب کی تھی جو دے دی گئی ہے۔
پیر کی حویلی میں فاطمہ کے ساتھ کام کرنے والی ایک اور ملازمہ اجالا نے بتایا ہے کہ وہ ظلم سے تنگ آکر وہاں سے بھاگ نکلی تھی۔
اس کا کہنا ہے کہ وہ حویلی کاسارا کام کرتی تھی لیکن اسد شاہ کی اہلیہ اسے بلاوجہ سخت تشدد کا نشانہ بناتی تھیں۔ ملازمہ نے بتایا کہ سزا کے طور پر اسے گرم پانی پلایا جاتا اور ساری رات جگایا جاتا تھا۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس صورتحال سے تنگ آکر خودکشی کا فیصلہ کرچکی تھی تاہم وہ کچھ عرصہ قبل حویلی سےبھاگ آئی تھی۔
ایس ایس پی میر روحیل کھوسو کے مطابق مجسٹریٹ نے ڈی جی ہیلتھ سندھ کو بچی کے پوسٹ مارٹم کے لیے میڈیکل بورڈ کی تشکیل کا حکم دیا ہے جس کے بعد قبرکشائی اور پھر پوسٹ مارٹم کیا جائے گا تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔