صدر مملکت عارف علوی نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے ڈائریکٹر احمد ندیم کی آفس اسسٹنٹ خاتون کو ہراساں کرنے پر وفاقی محتسب کی جانب سے سنائی گئی سزا میں اضافہ کرتے ہوئے انہیں نوکری برخاست کردیا ہے۔
ملزم احمد ندیم نے وفاقی محتسب کی جانب سے عائد کردہ 3 سال کے لیے 2 انکریمنٹ روکنے کی سزا کے خلاف صدر مملکت سے اپیل کی تھی۔ دوسری جانب ہراسانی کی شکار خاتون آفس اسسٹنٹ نے بھی وفاقی محتسب کے فیصلہ کو چیلنج کیا تھا۔
شکایت کنندہ خاتون آفس اسسٹنٹ نے نیپرا میں ہراساں کرنے کی درخواست دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم اپنے دفتر میں بلاکر ذاتی معاملات اور ان کی شکل و صورت پر تبصرے کرتا تھا۔ ملزم جسمانی طور پر رابطہ کرنے سمیت لنچ اور ڈنر کی دعوت دینے سمیت غیر ضروری اور نامناسب ٹیکسٹ پیغامات بھی بھیجتا تھا۔
خاتون کی شکایت پر نیپرا کی انٹرنل ہراسمنٹ کمیٹی نے تفصیلی انکوائری رپورٹ میں ملزم کے خلاف ہراساں کرنے کے الزامات ثابت ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے انہیں ڈائریکٹر سے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر تنزلی کی سزا عائد کرنے کی سفارش کی۔
فیصلے کے خلاف شکایت کنندہ اور ملزم دونوں نے انسدادِ ہراسیت محتسب کو اپیل دائر کی ۔ انسدادِ ہراسیت محتسب نے سزا کو کم کر کے 3 سال کے لیے 2 انکریمنٹ روکنے کی سزا سنائی۔ جس کے بعد ملزم اور شکایت کنندہ دونوں نے محتسب کے فیصلے کے خلاف صدر مملکت کو اپیلیں دائر کی تھیں۔
صدر مملکت نے ایوان ِصدر میں کیس کی ذاتی طور پر سماعت کے دوران ریکارڈ اور فریقین کے بیانات کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا کہ نیپرا کی کمیٹی کی انکوائری کافی تفصیلی تھی جس میں جرم کی تائید میں شواہد موجود تھے دوسری جانب ملزم نے ہراسانی کی بجائے صرف سزا کی شدت پر اعتراض کیا۔
صدر مملکت نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ ملزم کے رویے نے خاتون کو منصفانہ اور آزادانہ طریقے سے فرائض انجام دینے سے روکا، ملزم کے رویے سے کام کے ماحول میں خلل پڑا، خاتون کو ہراساں کیا گیا، اس تجربے سے گزرنے والی خواتین کے لیے ہراسانی سنگین نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔
’اگر خواتین کسی صاحب ِاختیار شخص کے غیر اخلاقی مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں تو انہیں ملازمت یا ترقی کھونے کا خطرہ ہوتا ہے، ساتھی کے ناپسندیدہ طرز ِعمل نے کام کے ماحول کو مخالف اور ناخوشگوار بنا یا، ہراسانی سے خواتین پر بلاواسطہ دباؤ ڈلتا ہے کہ وہ نوکری چھوڑ دیں۔‘
صدر مملکت عارف علوی نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ تمام واقعات ، شواہد ، سی سی ٹی وی فوٹیج ، واٹس ایپ گفتگو سے ملزم کا قصور ثابت ہوتا ہے۔ ’ہراسانی ثابت ہو چکی، ملزم کسی رعایت کا مستحق نہیں، نوکری سے نکالنے کی سزا دی جاتی ہے۔‘