بس اتنا کافی ہے

اتوار 20 اگست 2023
author image

مریم نسیم

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جب میں یونیورسٹی میں مصوری پڑھ رہی تو ظاہر ہے ہم سب کی کوشش ہوتی تھی کہ جو تصویر ہم بنا رہے ہیں اس میں کوئی نقص یا برائی نہ ہو اور وہ ہر لحاظ سے مکمل ہو تو اس کوشش میں ہم کافی دیر تک برش پر رنگ لگا لگا کر کینوس پر گھستے رہتے تھے۔ ایک دن میری ایک استانی کہنے لگیں، تم سب کو تصویر شروع کرنا تو آتی ہے مگر یہ سمجھ نہیں آتا کہ کہاں پر رک جانا ہے یا بس کر دینا ہے۔

بے تحاشہ رنگ لگا کر دیر تک تصویر پر کام کرتے رہنا تصویر کو پھر سے خراب کر دیتا ہے۔ بس تصویر بنانے تک تکمیل کے مرحلے میں ایک نکتہ ایسا آتا ہے جس پر تصویر مکمل ہوتی ہے۔ تم لوگوں کو اس مرحلے تک کئے گئے کام کو کافی سمجھنا چاہیے اور وہاں پر رک جانا چاہیے۔

بہت برسوں بعد عملی زندگی کے اسرار و رموز پر بات کرتے ہوئےجب مجھے یہ واقعہ یاد آیا تو احساس ہوا کہ بہت ملنے کا تصور عملی زندگی میں بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنا کہ تصویر بنانے میں۔

یہ بات درست ہے کہ آج کل معاشی حالات بہت خراب ہیں اور بہت سے لوگ تمام دن محنت کر کے بھی اپنی بہت سی ضروریات پوری نہیں کر پاتے۔ مگر اس طبقے سے معاشی طور پر ذرا بہتر یعنی اپر مڈل کلاس کی بات کریں تو شاید ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ کیا وہ ضروریات واقعی ہی میں ہماری ضروریات ہیں؟ یا ہم نے ایک پر تعیش طرز زندگی کو اپنے لئے ضروری گردان لیا ہے؟

جب میں نے شروع شروع میں آئی ٹی سے متعلقہ خود کا کام شروع کیا تو مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ مجھے کہاں پر بس کرنا چاہیے۔ جو نیا پروجیکٹ آتا میں پکڑتی جاتی اور آخر میں دن رات کام کر کر کے میں تھک جاتی۔ آخر کو مجھے خیال آیا کہ مجھے اپنی ہمت کے مطابق کام کو لے کر چلنا ہے اور ایک خاص حد کی محنت کے بعد رک جانا ہے۔

اسی طرح جب ہم نے مکان بنانا تھا تو مجھے لگا کہ ایک چھوٹے رقبے کا مکان اس لئے کافی ہے کہ اس کو سنبھالنا اور اس کی صفائی بھی آسان ہے اور اس کو خریدنے میں بھی ہمیں کسی تنگی کا شکار نہیں ہونا پڑے گا۔

پیسے، طاقت کی دوڑ اور مقابلہ بازی جیسی چیزوں میں یہ اصول لاگو ہوتے ہیں۔ ویسے توکل، قناعت اور میانہ روی کا تصور تو مذہب نے بھی دیا ہے۔ اگر ہم سوچیں تو پیسے کا مقصد ہے کہ وہ ہمیں آزادی دے۔ ہمیں اپنی مرضی کرنے کی، زندگی کا مزا لینے کی آزادی دے۔ اگر ہم نے پیسے کی حوس کو خود پر اتنا طاری کر لینا ہے کہ ہم تمام دن پیسے کی پیچھے ہی بھاگتے رہیں تو کیا یہ ایک بہتر معیار زندگی ہے؟

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شاید ’اس سے بھی زیادہ‘ کی بجائے ہمیں ’کافی‘ کے تصور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہاں پر رک جانے کی ضرورت ہے جہاں پر ہم ایک آرام دہ زندگی گزار سکیں، خوش رہ سکیں اور اپنے لیے اتنا وقت نکال سکیں کہ ہم اس پیسے سے لطف اندوز بھی ہوسکیں۔

اپنی ضروریات کو بڑھاتے ہوئے بھی ایک حد قائم کرنے کی ضرورت ہے اور پھر اس کے لئے محنت کرتے ہوئے بھی بس اتنا بھاگیں جتنا ضروری ہے۔ بس جتنا آرام سے ہو سکے اس کو کافی سمجھنا بھی ضروری ہے اور دن میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کا وقت نکالنا چاہیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مریم نسیم خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ایک آئی ٹی پروفیشنل، خاکہ نگار اور ٹیرو کارڈ ریڈر ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

علما کے جائز مسائل حل کیے جائیں گے: محسن نقوی کی مفتی منیب الرحمان سے ملاقات میں اتفاق

پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں، درآمدات میں اضافہ برآمدات پر بھاری

آزاد کشمیر: مسلم لیگ ن کا حکومت سے علیحدگی کا اعلان، اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ

بلوچستان پاکستان کا فخر، خوشحالی کے لیے سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر کام کرنا ہوگا، فیلڈ مارشل عاصم منیر

میرپور میں تاریخ رقم: ویسٹ انڈیز نے بنگلہ دیش کے خلاف ون ڈے میں صرف اسپنرز آزمائے

ویڈیو

آنکھوں میں اندھیرا مگر خواب روشن: حسن ابدال کی اسرا نور کی کہانی

وطن واپسی کے 2 سال، کیا نواز شریف کی سیاسی زندگی اب جاتی عمرہ تک محدود ہوگئی ہے؟

شہباز حکومت اور جی ایچ کیو میں بہترین کوآرڈینیشن ہے، ون پیج چلتا رہے گا، انوار الحق کاکڑ

کالم / تجزیہ

افغانوں کو نہیں، بُرے کو بُرا کہیں

ہم ’یونیورس 25‘ میں رہ رہے ہیں؟

پاک افغان امن معاہدہ کتنا دیرپا ہے؟