جب میں یونیورسٹی میں مصوری پڑھ رہی تو ظاہر ہے ہم سب کی کوشش ہوتی تھی کہ جو تصویر ہم بنا رہے ہیں اس میں کوئی نقص یا برائی نہ ہو اور وہ ہر لحاظ سے مکمل ہو تو اس کوشش میں ہم کافی دیر تک برش پر رنگ لگا لگا کر کینوس پر گھستے رہتے تھے۔ ایک دن میری ایک استانی کہنے لگیں، تم سب کو تصویر شروع کرنا تو آتی ہے مگر یہ سمجھ نہیں آتا کہ کہاں پر رک جانا ہے یا بس کر دینا ہے۔
بے تحاشہ رنگ لگا کر دیر تک تصویر پر کام کرتے رہنا تصویر کو پھر سے خراب کر دیتا ہے۔ بس تصویر بنانے تک تکمیل کے مرحلے میں ایک نکتہ ایسا آتا ہے جس پر تصویر مکمل ہوتی ہے۔ تم لوگوں کو اس مرحلے تک کئے گئے کام کو کافی سمجھنا چاہیے اور وہاں پر رک جانا چاہیے۔
بہت برسوں بعد عملی زندگی کے اسرار و رموز پر بات کرتے ہوئےجب مجھے یہ واقعہ یاد آیا تو احساس ہوا کہ بہت ملنے کا تصور عملی زندگی میں بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنا کہ تصویر بنانے میں۔
یہ بات درست ہے کہ آج کل معاشی حالات بہت خراب ہیں اور بہت سے لوگ تمام دن محنت کر کے بھی اپنی بہت سی ضروریات پوری نہیں کر پاتے۔ مگر اس طبقے سے معاشی طور پر ذرا بہتر یعنی اپر مڈل کلاس کی بات کریں تو شاید ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ کیا وہ ضروریات واقعی ہی میں ہماری ضروریات ہیں؟ یا ہم نے ایک پر تعیش طرز زندگی کو اپنے لئے ضروری گردان لیا ہے؟
جب میں نے شروع شروع میں آئی ٹی سے متعلقہ خود کا کام شروع کیا تو مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ مجھے کہاں پر بس کرنا چاہیے۔ جو نیا پروجیکٹ آتا میں پکڑتی جاتی اور آخر میں دن رات کام کر کر کے میں تھک جاتی۔ آخر کو مجھے خیال آیا کہ مجھے اپنی ہمت کے مطابق کام کو لے کر چلنا ہے اور ایک خاص حد کی محنت کے بعد رک جانا ہے۔
اسی طرح جب ہم نے مکان بنانا تھا تو مجھے لگا کہ ایک چھوٹے رقبے کا مکان اس لئے کافی ہے کہ اس کو سنبھالنا اور اس کی صفائی بھی آسان ہے اور اس کو خریدنے میں بھی ہمیں کسی تنگی کا شکار نہیں ہونا پڑے گا۔
پیسے، طاقت کی دوڑ اور مقابلہ بازی جیسی چیزوں میں یہ اصول لاگو ہوتے ہیں۔ ویسے توکل، قناعت اور میانہ روی کا تصور تو مذہب نے بھی دیا ہے۔ اگر ہم سوچیں تو پیسے کا مقصد ہے کہ وہ ہمیں آزادی دے۔ ہمیں اپنی مرضی کرنے کی، زندگی کا مزا لینے کی آزادی دے۔ اگر ہم نے پیسے کی حوس کو خود پر اتنا طاری کر لینا ہے کہ ہم تمام دن پیسے کی پیچھے ہی بھاگتے رہیں تو کیا یہ ایک بہتر معیار زندگی ہے؟
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شاید ’اس سے بھی زیادہ‘ کی بجائے ہمیں ’کافی‘ کے تصور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہاں پر رک جانے کی ضرورت ہے جہاں پر ہم ایک آرام دہ زندگی گزار سکیں، خوش رہ سکیں اور اپنے لیے اتنا وقت نکال سکیں کہ ہم اس پیسے سے لطف اندوز بھی ہوسکیں۔
اپنی ضروریات کو بڑھاتے ہوئے بھی ایک حد قائم کرنے کی ضرورت ہے اور پھر اس کے لئے محنت کرتے ہوئے بھی بس اتنا بھاگیں جتنا ضروری ہے۔ بس جتنا آرام سے ہو سکے اس کو کافی سمجھنا بھی ضروری ہے اور دن میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کا وقت نکالنا چاہیے۔