مختلف پارٹیوں کے رہنماؤں نے صدر عارف علوی کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہاکہ وہ اس منصب پر رہنے کے اہل نہیں ہیں ان کو استعفیٰ دے دینا چاہیے، جس کا عملہ اسکی بات نہ سنتا ہو وہ اس عہدے پر رہنے کا اہل کیسے ہو سکتا ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے صدر کے بیان پر رد عمل میں کہاکہ یہ معاملہ تو سپریم کورٹ میں جانا چاہیے، بلکہ سپریم کورٹ کو خود اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ صدر عارف علوی کے اس بیان نے تو پینڈورا باکس کھول دیا ہے، ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز شخص کا حال یہ ہے تو پورے ملک کا حال کیا ہوگا۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہاکہ صدر اپنے بیان کے بعد اس عہدے کے اہل ہی نہیں رہے، صدر کی ناک کے نیچے کوئی دستخط کرتا ہے اور اس کو معلوم ہی نہیں ہے، تو یہ اس عہدے پر فائز شخص کی اہلیت پر سوال ہے، آپ کا عملہ ہی آپ کی بات نہیں سن رہا تو آپ عہدہ کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔
مزید پڑھیں
سینیٹر اسحاق ڈار نے سماجی رابطہ ایکس پر اپنے رد عمل میں لکھا کہ صدر کا بیان ناقابل یقین ہے، ایسے بیان صرف ساکھ سے کھیلنے کی کوشش ہوتی ہے، بہرحال صدر مملکت اپنے عہدے پر رہنے کا جواز کھو چکے ہیں تاہم اخلاقی طور پر ان کو استعفیٰ دے دہنا چاہیے۔
Unbelievable —minimum morality warrants Alvi Sb to resign, having failed to run his office effectively, efficiently and as per Rules of Business — official work is conducted on files and implementation ensured — such statements only indicate playing with the gallery.
God help us! pic.twitter.com/UopZRVe6Tq— Ishaq Dar (@MIshaqDar50) August 20, 2023
پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی نے صدر عارف علوی کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ جس کو یہ ہی نہیں پتا کہ اس کا اسٹاف کیا کر رہا ہے، اس کو اس کرسی پر رہنے کا کوئی حق ہی نہیں ہے۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ صدر کہنا کیا چاہتے ہیں کھل کر بات کریں، اگر ان کو اعتراض تھا تو اعتراض لکھ کر کیوں نہ بھیجے، صدر کے بس میں اپنا اسٹاف بھی نہیں تو مستعفی ہو کر گھر جائیں۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے صدر عارف علوی کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہاکہ یہ بیان ان کا اپنا ذاتی معاملہ ہے، لیکن پی ٹی آئی ان کے بیان کے ہر پہلو کا جائزہ لے کر اپنا رد عمل ریکارڈ کروائے گی، تاہم یہ بیان پاکستان کی موجودہ صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔
نگراں وزارت قانون و انصاف نے بھی صدر کے بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ صدر کو بل پر ابہام تھا تو وہ بل پر اعتراض لگا کر بھیجتے، یا اس سلسلے میں پریس ریلیز بھی جاری کرسکتے تھے۔ سمجھ یہی آرہا ہے کہ صدر نے جان بوجھ کر بل بھیجنے میں تاخیر کی۔