تاریخ کے ناکام یا حالات کا شکار ہو جانے والے حکمرانوں،راہنماؤں کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے ایک بات عموماً کہی جاتی ہے کہ فلاں تو اچھا تھا مگر اس کے مشیروں نے اسے ڈبویا۔ ہو سکتا ہے یہ بات کسی حد تک درست ہو ، مگر حقیقت یہ ہےکہ مشیروں کو چننے والا بھی خود حکمران ہی ہوتا ہے۔ بہرحال کامیابی یا ناکامی کا کُلی طور پر ذمہ دار حکمران ہی قرار پاتا ہے۔ باقی ساری باتیں ضمنی رہ جاتی ہیں ۔ آپ اگر تاریخ پر ایک نظر دوڑائیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ تاریخی طور پر ناکام مذہبی راہنماؤں کے ساتھ اکثر مافوق الفطرت اور ماورائی طاقتوں کو جوڑ دیا جاتا ہے۔ دراصل ایسی سوچ ان کے پیرو کاروں اور عقیدت مندوں کو ایک گونا طمانیت دیتی ہے کہ ان کا راہنماء واقعی کوئی ماورائی طاقتوں کا حامل تھا بس اس نے اصو لوں اور عوام کے مفاد میں طاغوتی طاقتوں سے ٹکر لی اور اپنے فوائد کی کو اعلیٰ قدروں پر قربان کر دیا اور خود وقت کے بے رحم تھپیڑؤں کی نذر ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ کامیابی کے دعویدار کئی ہوتے ہی مگر ناکامی کی ذمہ داری کم ہی کوئی لیتا ہے ۔
اسی وقت ہمارے ملک سب سے زیادہ زیرِ بحث موضوع بلا شبہ عمران خاں ہی ہے ۔ غالباً انٹر نیٹ پر بھی سرچ میں سرِ فہرست خان ہی ہوگا۔ ان کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے تو ان کا سب سے پہلا حوالہ ان کا بطور کرکٹر ہونا ہی ہے۔ کرکٹ کے میدان میں ان کا کردار ایک روشن مثال کے طور دیا جا سکتا ہے۔ ناکامیوں کے باجود انھوں نے اپنا شمار دنیا کے کامیاب ترین کرکٹرز اور کپتانوں میں کروایا۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کسی سے دبتے نہیں اور اپنی مرضی کرتے ہیں ۔ چونکہ کامیابیاں ان کا مقدر ٹھہریں اس لئے ان پر کبھی اُٹھنے والے اعتراضات پر بھی کم ہی کوئی کان دھرتا تھا۔ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے لوگوں کی مدد سے پاکستان کا پہلا کینسر ہسپتال بنانے کا منفرد کارنامہ سر انجام دیا۔ شوکت خانم ہسپتال کے افتتاح کے تقریباً چار ماہ بعد انھوں نے اپریل 1996 میں اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھی مگر سیاست کے میدان میں انھیں کرکٹ کی طرح کامیابیاں نہ ملیں البتّہ اپنی واحد سیٹ قومی اسمبلی میں کئی دفعہ جیتنے میں کامیاب رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے آخری دنوں میں وہ حکومت پر بہت شدو مد سے تنقید کرتے رہے ۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستانی علاقوں میں امریکہ ڈرون حملے کیا کرتا تھا جس میں بہت سا جانی اور مالی نقصان ہوا کرتا تھا۔عمران خان نہ صرف ان ڈرون پر حملوں شدید تنقید کیا کرتے تھے بل کہ ان حملوں کے خلاف انھوں نے سرحدی علاقوں تک مارچ بھی کیا ۔ عمران خاں اپنے طویل سیاسی کیرئیر میں سیاسی اتحادوں کا حصہ بھی رہے مگر اقتدار میں آنے کے حوالے سے ا مکانات کم ہی پیدا ہوئے۔ مگر 30 اکتوبر 2011ء کو مینارِ پاکستان لاہور کے مقام پر پاکستان تحریکِ انصاف کے جلسے نے تبدیلی کی طرف ایسا قدم رکھا کہ 2018 کے الیکشنز کے نتیجے میں وہ آخر کار پاکستان کے وزیرِ اعظم بن گئے۔ قبل ازیں کس طرح انھوں نے دھرنوں کے ذریعے میاں نواز شریف کی حکومت کوزچ کیے رکھا اور کن قوتوں کی دھرنوں کے حوالے سے انھیں آشیر باد حاصل تھی یہ ہمارا موضوع نہیں۔مارچ 2022ء میں عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے چند ماہ قبل تک تاثر یہ تھا کہ اگلے الیکشنز کے بعد بھی پی ٹی آئی کی ہی حکومت بنے گی۔چند اتحادیوں کو ملا جلا کر بننے والی حکومت بھی ایک مضبوط حکومت تاثر لئے ہوئے تھی ۔ حکمران بالکل بھی اپوزیشن کی بات سُننے کے روادار نہیں تھے۔اگر خان کی حکومت 100 فی صد ہی غلط کام کرتی تو یقیناً وہ چار سال بھی نہ نکالتی ۔بری کارکردگی کے ساتھ ساتھ انھوں نے کچھ اچھے کام بھی کئیے ہوں گے۔لیکن کچھ تو ایسا ہوا کہ جس حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی پوری طرح سپورٹ حاصل تھی وہ اپنی آئنیی مدت بھی پوری نہ کر سکی کُجا وہ مزید پانچ ،چھ سال ملک پر حکمرانی کرتی۔
ہو سکتا ہے عمران خان اور ان کے سپورٹرز سمجھتے ہوں کہ بشریٰ بی بی جیسی روحانی شخصیت سے شادی کی برکت سے ہی وہ اقتدار کی راہداریوں میں داخل ہوئے۔مگر شاید عمران کی شخصیت کا کم زور پہلو بھی یہی ہو۔کسی فرد کی شادی اس کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے لیکن چونکہ عمران خان کی شادی کے اثرات ان کی شخصیت اور حکمرانی پر بھی پڑے اس لئے یہ زیرِ بحث بھی آیا۔ یہ کسی بھی دو افراد کا خالصتاً نجی معاملہ ہوتا ہے کہ وہ کس عمر میں کس سے شادی کریں یا اپنے جیون ساتھی سے علیحدگی اختیار کریں۔ شادی سے پہلے بھی بشریٰ بی بی عمران خان کی روحانی رہبر بیان کی جاتی ہیں۔ شادی کا اس شرط پر ہونا کہ اس سے خان کو اقتدار ملے گا یہ عمران خان کی ضعیف الاعتقادی کو ظاہر کرتا ہے۔ کسی خاص شگون کے تحت نکاح کرنا اور پھر اسے کسی خاص وقت پر ظاہر کرنا بھی یہی ظاہر کرتا ہے۔بشریٰ بی بی جو پنکی پیرنی کے نام سے معروف ہیں جب انھوں نے عمران خان سے شادی کی تووہ پانچ جوان بچوں کی ماں تھیں۔ عام لوگوں نے اس بات کو بھی نظر انداز کیا حالاں کہ ہمارے ہاں معاشرتی طور پر اس بات کو معیوب خیال کیا جاتا ہے کوئی عورت جوان بچوں اور خاوند کے ہوتے ہوئے طلاق لے اور پھر شادی بھی کرلے اور جس سے آپ شادی کر رہے ہوں وہ کوئی گلی محلے کا کونسلر نہیں بل کہ عمران خان ہو ۔
الیکشن کے قریب عمران خان اپنی بیگم کے ہم راہ بابا فرید گنج شکر کے مزار پر گئے ان کی حاضری کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ۔ عمران کو جس مخصوص انداز میں کہنیوں کے بل بیٹھا کر دعا کرائی گئی ۔لگتا ہی نہیں تھا کہ عمران خان یہ سب کر رہے ہیں۔ پھر اقتدار میں آنے کے بعد ع، م یا نا م کے ہجوں کے اعتبار سے عہدے دینا یا ایسی باتوں کا زبان زدِ عام ہونا کسی وزیرِ اعظم کے حق میں نہیں جاتا ۔سیا سی سوجھ بوجھ ،فہم و فراست اور معاملہ فہمی کی بجائے ماورائی ، مافوق الفطرت یا دم درود ،اور چلہ کشی کے ذریعے حکومتیں نہیں چلائی جا سکتیں۔ریاستِ مدینہ کی صبح شام گردان کرنے والے عمران خان کیسے بھول گئے کہ صلح حدیبیہ نبیِ مکرم ؐ کی بہترین سیاسی سوجھ بوجھ کا نتیجہ تھی۔
پھر اسی طرح پنجاب جیسے صوبے میں عثمان بزدار جیسے نااہل وزیرِ ا علیٰ کی تعیناتی اور کے پی میں محمود خان جیسے شخص کا انتخاب بھی عمران خان کی فیصلہ سازی پر سوال بنا رہا۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران اعظم خان جیسے بیورو کریٹ کو مسلسل اپنا پرنسپل سیکریٹری بنائے رکھنا۔اپنے سیاسی ساتھیوں پر بھی اسے ترجیح دینا اور اپنے کان اور آنکھ بنائے رکھنے کا نتیجہ عمران خان نے دیکھ لیا ہوگا۔
بطور وزیراعظم عمران خان وہ شخص لگتے ہی نہیں تھے جس کا تاثر بطور کرکٹر ،کپتان اور ایک سماجی کارکن کے انھوں نے بنایا تھا۔ کیا بطور کھلاڑی اور کرکٹ ٹیم کے کپتان یا کینسر ہسپتال بنانے والے سماجی لیڈر کے وہ کسی دم درود اور چلہ کشی کا سہارا لیتے تھے؟ عمران خان نے وزیرِ اعظم کے طور جس طرح اسٹیبلشمنٹ کے ہر غلط صحیح اقدام کا دفاع کیا ۔ جس طرح امو رِ مملکت چلانے کے لئے دم درود اور چلہ کشیوں کا سہارا لیا یہ ہر گز وہ عمران خان نہیں تھا جس کو بطور کپتان کے پاکستانی اور دنیا جانتی تھی۔ معاملہ فہمی سے ایک مضبوط کپتان کے طور پر بیٹنگ اور باؤلنگ آرڈر تبدیل کرنا ، وقت کی نزاکت کو مدِنظر رکھتے ہوئے مشکل فیصلے بروقت کرنا اور کھلاڑی کو اس کی خوبی خامی کو مدِ نظر رکھتے ہوئےاس کی صلاحیتوں سے ٹیم کے لئے فائدہ اُٹھانا عمران خان کی وہ خوبیاں تھیں جن کا ایک زمانہ گرویدہ اور معترف تھا۔ بد قسمتی سے ان کی یہ خوبیاں بطور حکمران اجاگر نہ ہو سکیں ۔ تاریخ انھیں ایک کم زور وزیر اعظم کے طور پر یاد رکھے گی۔
وزارتِ عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد بھی وہ ایک کایاں سیاست دان کے طور پر اپنا تاثر بنانے ناکام رہے ہیں۔ گو کہ 9 مئی تک انھوں نے اپنے پتے کامیابی سے کھیلے اور سیاسی چالوں سے پی ڈی ایم کے حکومتی اتحاد اور اسٹیبلشمنٹ کو زچ کیا رکھا مگر ایک سمجھ دار کپتان اور سیاست دان کی طرح وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ کہاں رُکنا ہے اور کہاں چلنا ہے ۔ کہاں بولنا ہے اور کہا ں خاموش رہنا ہے۔
ان کے کچھ حامی سمجھتے ہیں کہ عمران خان 9 مئی کو ایک ٹریپ میں آگئے ہیں ۔ اگر ایسا فرض بھی کر لیا جائے تو بطور سیاست دان اس ٹریپ سے بچنے کا طریقہ کس نے نکالنا تھا؟
سیاست اور کھیل میں فرق نہ کرنے کا نتیجہ یقیناً عمران خان صاحب نے دیکھ لیا ہوگا۔