آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں کیا ترامیم کی گئی تھیں؟

اتوار 20 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 اور آرمی ایکٹ  ترمیمی بل 2023 کے قانون بننے کے اگلے ہی دن صدر مملکت عارف علوی کا اپنے ٹوئٹ کے ذریعے ایک بیان سامنے آیا ہے کہ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ وہ ان قوانین سے متفق نہیں تھے۔

صدر عارف علوی کا ٹوئٹ

صدر عارف علوی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ان کا خدا اس بات کا گواہ ہے کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ وہ ان قوانین سے متفق نہیں تھے۔جب عملے سے کہا گیا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر اسمبلی میں واپس بھیج دیں تاکہ ان بلوں کو غیر مؤثر بنایا جا سکے، تاہم ان کے عملے نے ان کی مرضی کے برعکس ان کی حکم عدولی کی۔

صدر کے اس بیان پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے صدر سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

وی نیوز نے تحقیق کی کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 میں کون سی ترامیم کی ہیں۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل

آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 کے تحت سرکاری حیثیت میں پاکستان کی سلامتی اور مفاد میں حاصل معلومات کا غیر مجاز انکشاف کرنے والے شخص کو 5 سال تک سخت قید کی سزا دی جائے گی۔

مجاز انکشاف پر سزا نہیں ہوگی

بل میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف یا بااختیار افسر کی اجازت سے انکشاف کرنے والے کو سزا نہیں ہو گی۔ پاکستان اور افواج پاکستان کے مفاد کے خلاف انکشاف کرنے والے سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے تحت نمٹا جائے گا۔

سیاسی سرگرمی

بل کے مطابق قانون کے ماتحت شخص سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا، متعلقہ شخص ریٹائرمنٹ، استعفے ، برطرفی کے 2 سال بعد تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا اور حساس ڈیوٹی پر تعینات شخص 5 سال تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکے گا۔ سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے کو 2 سال تک سخت سزا ہو گی۔

الیکٹرانک کرائم کے تحت کارروائی کی جائے گی

آرمی ایکٹ کے ماتحت شخص اگر الیکٹرانک کرائم میں ملوث ہو جس کا مقصد پاک فوج کو بدنام کرنا ہو تو اس کے خلاف الیکٹرانک کرائم کے تحت کارروائی کی جائے گی جب کہ آرمی ایکٹ کے تحت شخص اگر فوج کو بدنام کرے یا اس کے خلاف نفرت انگریزی پھیلائے اسے 2 سال تک قید اور جرمانہ ہو گا۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل

آفیشل سیکرٹ ایکٹ 2023 ترمیمی بل کے ذریعہ ایف آئی اے اور ڈی جی ایف آئی اے کے اختیارات بڑھائے گئے ہیں، انٹیلیجنس ایجنسیز کے نظر نہ آنے والے اہلکاروں کی شناخت ظاہر کرنا جرم قرار دیا گیا ہے۔

قید و جرمانے کی سزا

بل کے مطابق حساس اداروں کے مخبروں کی شناخت منکشف کرنے پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔

بالواسطہ یا بلا واسطہ دشمن کو فائدہ پہنچانا

بل کے تحت الیکٹرانک ڈیوائسز، ڈیٹا، معلومات دستاویزات یا دیگر مواد کو تحقیقات میں بطور شواہد پیش کیا جا سکے گا۔ کوئی شخص جو جان بوجھ کر امن عامہ کا مسئلہ پیدا کرتا ہے، ریاست کے خلاف کام کرتا ہے،ممنوعہ جگہ پر حملہ کرتا یا نقصان پہنچاتا ہے، جس کا مقصد یا بالواسطہ یا بلا واسطہ دشمن کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ جرم کا مرتکب ہوگا۔

معلومات تک غیر مجاز رسائی

بل میں کہا گیا ہے کہ الیکٹرانک یا جدید آلات کے ساتھ یا ان کے بغیر ملک کے اندر یا باہر سے دستاویزات یا معلومات تک غیر مجاز رسائی حاصل کرنے والا مجرم ہوگا جبکہ بغیر پائیلٹ وہیکل یا آلے کی ممنوعہ جگہ تک رسائی، داخل ہونے، قریب جانے یا آس پاس ہونے کا ارتکاب کرنے والا مجرم ہوگا۔

پاکستان کے مفاد کے خلاف معلومات و دستاویزات کا انکشاف

بل کے مطابق ہتھیار، آلات کو ضائع کرنے، پاکستان کے مفاد کے خلاف معلومات و دستاویزات کا انکشاف کرنے والا جرم کا مرتکب ہوگا اور دشمن یا غیر ملکی ایجنٹ کے ساتھ رابطے میں رہنے یا ملنے والا ذمہ دار ہوگا۔

3 سال قید، 10 لاکھ جرمانہ

پاکستان کے اندر یا باہر ریاست کے تحفظ یا مفادات کے خلاف کام کرنے والے کے خلاف کارروائی بھی اسی ایکٹ کے تحت ہوگی اور جان بوجھ کر امن عامہ،مفادات یا پاکستان کے لیے نقصان دہ کام کرنے کے جرم کے مرتکب فرد کو 3سال قید، 10لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔کوئی بھی شخص جو جرم پر اکساتا ہے، سازش کرتا ہے یا اس کے ارتکاب کی کوشش کرتا ہے وہ سزا کا مستوجب ہوگا۔

بل کے تحت تلاشی

بل کے تحت تلاشی کے دوران برآمد ہونے والے ہتھیار، گولہ بارود، الیکٹرانک یا جدید آلات ضبط کر لیے جائیں گے اور ملزم کی گرفتاری کے دوران ضبط کیا گیا مواد تفتیشی افسر یا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کے حوالے کیا جائے گا۔

تفتیشی افسر ایف آئی اے کا ہوگا

تفتیشی افسر ایف آئی اے کا آفیسر ہوگا، مذکورہ افسر کی تقرری ڈی جی ایف آئی اے کرے گا اور ضرورت پڑنے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی جاسکے گی جب کہ مذکورہ جرائم خصوصی عدالت کو بھیجے جائیں گے، خصوصی عدالت 30 دن کے اندر سماعت مکمل کرکے فیصلہ کرے گی۔ اس ترمیم کا مقصد سرکاری دستاویزات کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔

آفیشل سیکرٹ پر کیا اعتراض تھے؟

آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل میں اعتراض 2 باتوں پر تھا کہ گرفتاری کا اختیار بغیر وارنٹ دیا گیا تھا اس اعتراض کو گزشتہ حکومت نے ختم کر دیا تھا اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی بغیر وارنٹ گرفتاری والی شق واپس لے لی گئی تھی جب کہ بل میں کچھ الفاظ پر اعتراضات سامنے آئے ان کو بھی تبدیل کر دیا گیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp