صدر علوی نے بل منظور نہیں کیے تو کیا کِیا؟

پیر 21 اگست 2023
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایوان صدر کو عام طور پر ڈاک خانہ قرار دیا جاتا ہے کہ اِدھر یعنی وزیر اعظم ہاؤس سے ڈاک آئی اور اُدھر ڈاک خانے نے مہر لگا کر اسے منظوری کی سند عطا کر دی۔ بعض صورتوں میں ایسا ہوتا ہے لیکن ہمیشہ نہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے جیسا اب آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کے بلوں کے ضمن میں ہوا۔

معلوم ہوا ہے کہ صدر اور وزیراعظم اگر باہم متفق نہ ہوں یا موجودہ صورت میں 2 مختلف سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوں تو بنا بنایا کھیل بگڑ بھی جاتا ہے لیکن یہ اس طرح نہیں ہوتا جیسا جناب ڈاکٹر عارف علوی صاحب کے مشہور زمانہ ٹوئیٹ کے ذریعے تاثر کی کوشش کی گئی ہے کہ میں تو کہتا رہا کہ میں ان بلوں سے متفق نہیں لہٰذا انھیں واپس بھیج دیا جائے۔ یہ بات انہوں نے اس انداز میں کہی ہے کہ جیسے اس ’معصوم‘ خواہش کی پیروی میں یہ بل از خود واپس وہاں چلے جائیں گے، جہاں سے چلے تھے۔ تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ عمل کس طریقے سے انجام پاتا ہے؟

اس سوال کا جواب کوئی اور دے تو ممکن ہے کہ اختلاف پیدا ہو جائے اور سمجھا جائے کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر صدر مملکت کو ٹوئیٹ کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ اس مشکل کا آسان حل یہ ہے کہ کیوں نہ اس معاملے کو اس ایوان ہی کی ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اس طرح ہمارے سامنے وہ معیار آ جائے گا جو پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے کسی بل یا وزیر اعظم آفس سے آنے والی کسی سمری کو واپس کرنے سے متعلق اختیار کیا جاتا ہے۔

یہ 15 اگست 2023ء کی بات ہے، ذرائع ابلاغ کے توسط سے ایک خبر پاکستانی عوام تک پہنچی۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ صدر مملکت نے پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے تیرہ بل واپس بھجوا دیے ہیں۔ ان میں درج ذیل بل شامل تھے:

1- کوڈ آف کریمنل پروسیجر ترمیمی بل
2- نیشل اسکلز یونیورسٹی ترمیمی بل
3- امپورٹ ایکسپورٹ ترمیمی بل
4- ہائیر ایجوکیشن کمیشن ترمیمی
5- پاکستان انسٹیوٹ آف منیجمنٹ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی بل
6- صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ کا بل
7- نیوز پیپرز، نیوز ایجنسیز اینڈ بکس رجسٹریشن بل
8- پبلک سروس کمیشن ترمیمی بل
9- وفاقی اردو یونیورسٹی ترمیمی بل
10- این ایف سی انسٹی ٹیوٹ ملتان ترمیمی بل
11- نیشنل کمیشن برائے انسانی ترقی ترمیمی بل
12- قومی ادارہ برائے ٹیکنالوجی بل
13- ہورائزن یونیورسٹی بل

یہ بل کس طرح واپس ہوئے، آئین اور رولز آف پروسیجر اس سلسلے میں کیا راہنمائی کرتے ہیں۔ صدر مملکت کی ٹوئیٹ کے بعد اُٹھ کھڑے ہونے والے تنازع کے بعد آئین کے ماہرین نے اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈال دی ہے لیکن مختصر بات یہ ہے کہ اس قسم کی صورت حال میں صدر مملکت کے پاس 2 اختیار ہیں یعنی وزیر اعظم کی دانش پر بھروسہ کرتے ہوئے سمری منظور کر لیں یا مسترد کر دیں۔

جیسا کہ یہاں بیان کیے گئے 13 بلوں کے ضمن میں ہوا ہے۔ یہی آئینی اور قانونی طریقہ کار ہے۔ اگر کسی کو اس میں شبہ ہے تو اس کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اب تک جو ہوتا آیا ہے یا آئین کی روشنی میں بتایا جاتا رہا ہے تو وہ اس پر بالکل یقین نہ کریں، صدر عارف علوی نے 13 بلوں کو جس طرح واپس کیا ہے، اسی کو معیار بنا لیں تو بھی ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ بلوں یا سمری کی منظوری کا ایک طریقہ کار ہے۔

یہ طریقہ کار کیا ہے؟ اس طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک آدھ مثال سے معاملے کی نوعیت کو سمجھ لیا جائے۔ یہ شاید سال 2015 یا 2016 کی بات ہوگی جب سزائے موت کے ایک قیدی کے بارے میں اطلاع عام ہوئی کہ ان صاحب کا دماغی توازن بگڑ چکا ہے۔ قانون یہ کہتا ہے کہ کسی ایسے مجرم کو موت کی سزا نہیں دی جا سکتی جس کی صحت متاثر ہو۔ یہ خبر عام ہوتے ہی انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج شروع کر دیا جس کا حکومت نے نوٹس لیا اور تحقیق کے بعد سزا کو مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا۔

حکومت یہ فیصلہ تو کر سکتی ہے لیکن فیصلے پر عمل درآمد اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک صدر مملکت سے اس کی منظوری نہ مل جائے۔ وقت مختصر تھا، اس لیے وزارت داخلہ نے سمری تیار کی اور وزیر اعظم سے منظوری کے بعد اسے ایوان صدر بھیج دیا گیا۔ وقت کی کمی کے پیش نظر سیکریٹری داخلہ خود یہ سمری لے کر آئے اور منظوری کی دستاویزات ساتھ لے کر واپس گئے تاکہ پھانسی کو روکا جا سکے۔

یہ ایک سیدھا سادا کیس تھا جس کے بارے میں آئین اور قانون واضح ہے لہٰذا جلدی جلدی یہ کام ہو گیا۔ پارلیمنٹ کی قانون سازی اور آئینی ترامیم جیسے معاملات اور آرڈیننس وغیرہ اتنے سادہ نہیں ہوتے۔ ان کے اثرات دور رس ہوتے ہیں لہٰذا ان کی منظوری کے لیے آئین نے صدر مملکت کو معقول وقت کی مہلت دے رکھی ہے۔ اس مہلت کا جواز کیا ہے؟ اس کی بہترین مثال قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم جوڈیشل کمیشن کا وہ فیصلہ ہے جس میں کہا گیا تھا کہ یہ ریفرنس بھیجتے ہوئے صدر مملکت نے اپنا ذہن استعمال نہیں کیا ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ صدر مملکت اپنا ذہن کس طرح استعمال کرتے ہیں؟ اس مقصد کے لیے ایوان صدر میں ایک مکمل نظام موجود ہے جس کی سربراہی سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے سابق جج یا ان کے برابر صلاحیت رکھنے والے کوئی قانون دان کرتے ہیں۔ آئینی امور کو سمجھنے والا ایک بھاری بھرکم اسٹاف ان کی معاونت کرتا ہے۔

کسی قانون یا بل کو رد کرنے کے لیے صدر مملکت اپنے اس آئینی ماہر یا مشیر سے مدد لیتے ہیں جو آئین کی روشنی میں معاملے کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ صدر مملکت کو ارسال کرتے ہیں۔ یہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت انہیں تحریری طور پر دی جاتی ہے۔ یہی رپورٹ ہوتی ہے جو کسی بل، آئینی ترمیم یا آرڈیننس کی ایوان صدر سے واپسی کو قانونی بنیاد فراہم کرتی ہے۔

15 اگست 2023ء کی خبر سے واضح ہے کہ 13 بلوں کی واپسی کے سلسلے میں اس طریقہ کار کی مکمل پابندی کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بل کیسے واپس کیے جاتے ہیں، ایوان صدر ہی نہیں صدر مملکت بھی اس طریقہ کار سے پوری طرح آگاہ ہیں۔

15 اگست کو واپس ہونے والے بلوں کی تمام تر تفصیلات قوم کے سامنے آ چکی تھیں اور ایوان صدر کے فعال میڈیا ونگ نے ان کے اخباری تراشے بھی اگلے روز یقیناً صدر مملکت کی خدمت میں پیش کر دیے ہوں گے جو اس ایوان کاسال ہا سال کا معمول ہے۔

ایسا نہ بھی ہوا تو صدر علوی کے گزشتہ قریباً 5 برس کے ٹوئیٹ گواہی دیتے ہیں کہ وہ حالات حاضرہ سے مسلسل باخبر رہنے والی شخصیت ہیں اور وہ سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ کے ذریعے ان پر ردعمل بھی ظاہر کرتے ہیں۔ ایوان اور خود صدر مملکت کی اس ذاتی پریکٹس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ حالات حاضرہ سے مکمل طور پر با خبر رہتے ہیں۔

اگر ان 13 بلوں میں 2 اور 8 اگست کو موصول ہونے والے بلوں کا ذکر نہیں تھا تو انہیں اسی وقت حرکت میں آنا چاہیے تھا لیکن وہ آئندہ 5 روز تک اس سلسلے میں مکمل طور پر خاموش رہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کا جواب دیے بغیر صدر مملکت اس قضیے سے جان نہیں چھڑا سکیں گے۔

اس قضیے سے متعلق ایک سوال اور بھی اہمیت رکھتا ہے۔ صدر مملکت نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اپنے اسٹاف سے بار بار یہ سوال کرتے رہے کہ کیا یہ دونوں بل واپس بھیج دیے گئے ہیں؟ ان کے مطابق انہیں جواب دیا جاتا رہا ہے کہ جی بالکل۔ اس بیان سے اس نظام کو سمجھنے والے تو اپنی جگہ ایک عام آدمی کی سمجھ میں بھی یہی آتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو یہ سب کچھ زبانی کلامی ہو رہا تھا جب کہ ضابطہ کار یہ بتاتا ہے کہ بلوں کی واپسی کا پورے کا پورا نظام ایک قانونی عمل ہے۔

صدر مملکت کے دعوے سے بھی اس جانب کوئی اشارہ نہیں ملتا اور بادی النظر میں یہ صاف دکھائی بھی دیتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اگر صدر نے تحریری طور پر اس عمل کی ابتدا کر دی ہوتی تو ضابطہ کار کے مطابق کسی بڑی سے بڑی طاقت کے لیے بھی یہ ممکن نہ ہوتا کہ وہ 10 روز پر محیط اس عمل کو کسی بھی طرح سے روک سکے۔

ایوان صدر سے اٹھنے والے اس تنازع یا سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے مطابق اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد صدر مملکت کی یہ اولین ذمے داری تھی کہ وہ اس کی تحقیقات کی شروع کراتے۔ انہوں نے ایسا کرنے کے بجائے اپنا سیکریٹری تبدیل کیا ہے۔ اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ وہ اس واقعے کا تمام تر بوجھ ان پر منتقل کرکے معاملے کو دبا دینا چاہتے ہیں لیکن ان کی جان اس آسانی کے ساتھ چھوٹ سکے گی؟ آثار بتاتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں ہوگا۔

ایسا کیوں ممکن نہیں؟ اس کا سبب بہت واضح ہے۔ بلوں کی منظوری اور عدم منظوری کے طریقہ کار سے مکمل واقفیت کے باعث انہوں اس وقت تک سوچے سمجھے خاموشی اختیار کیے رکھی اور جب آئین کی دفعہ 75 کے تحت یہ بل از خود قانون کی شکل اختیار نہ کر گئے۔

شاہ محمود قریشی کے علاوہ عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں ان کے اثرات سامنے آگئے تو اپنی جماعت کے ردعمل سے بچنے کے لیے انہوں نے یہ گول مول وضاحت جاری کر دی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ گول مول وضاحت کبھی کسی کے کام نہیں آئی بلکہ یہ کچھ ایسا کام کرتی ہے جس کے لیے عزت جیسے لفظ کے متضاد ایک لفظ اہل زبان نے ایجاد کر رکھا ہے۔

(مصنف سابق صدر ممنون حسین کے ترجمان بھی رہے ہیں۔)

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp