جڑانوالہ: مسجد کے منتظمین کی عیسائیوں کو مسجد میں عبادت کی پیشکش

پیر 21 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

صنعتی حوالے سے خصوصی شہرت رکھنے والے پاکستانی شہر فیصل آباد میں مبینہ طور پر قرآن جلانے کے بعد پیش آنے والے پرتشدد واقعات کے متاثرین کے لیے پاکستانی انوکھی امدادی مہم چلا رہے ہیں۔

سوشل ٹائم لائنز پر کوئی ’متاثرہ بچوں میں کتابیں وبیگز‘ تقسیم کر رہا ہے۔ کوئی ’متاثرہ چرچ اور گھروں کی ازسرنو تعمیر کے لیے فنڈز جمع‘ کر رہا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مقامی پادری نے بتایا کہ انہیں ایک مسجد کے منتظمین نے پیشکش کی کہ وہ اپنی دعائیہ عبادت مسجد میں آ کر کر سکتے ہیں۔

فیصل آباد کے علاقے جڑانوالہ میں پیش آنے والے ابتدائی واقعے کو کئی دن گزر چکے ہیں تاکہ ملک کے مختلف حصوں میں مقیم مسیحی افراد سے اظہار یکجہتی اور پرتشدد معاملے کی مذمت کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

پاکستان میں حکومتی شخصیات سمیت مختلف سیاسی ومذہبی رہنماؤں کی جانب سے واقعے کی مذمت کے ساتھ متاثرین کی امداد کے اعلانات بھی کیے گئے تو سوشل ٹائم لائنز بھی اس معاملے پر پیچھے نہ رہیں۔

معاملے پر گفتگو کرنے والوں نے حکومت سے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا تو کئی افراد ایک قدم آگے بڑھ کر متاثرین کی مدد کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔

پاکستانی خاتون صحافی ترہب اصغر نے ایک تصویر پوسٹ کی جس میں ایک عمررسیدہ فرد کو ہاتھ میں جلی ہوئی کتاب اٹھائے دکھایا گیا ہے۔ ساتھ دیے گئے کیپشن میں لکھا کہ’انہوں نے میری پوتی کا اسکول بیگ اور کتابیں جلا دی ہیں۔‘

جواب میں سابق وزیراعظم شہباز شریف کی مشیر برائے امور نوجوانان شزہ فاطمہ خواجہ نے متاثرہ بچوں کو نئے اسکول بیگز اور کتابیں بھجوائیں۔


صارفین کا ماننا تھا کہ مسیحی برادری کا جو نقصان ہوا ہے وہ ناقابل تلافی ہے لیکن حکومت کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک قوم بن کر ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ متاثرین جلد از جلد معمول کی زندگی کی طرف واپس آ سکیں۔

اسلام آباد میں صحافت کے شعبے سے وابستہ وقار بھٹی نے فیس بک پوسٹ میں لکھا ’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ جڑانوالہ میں کلیساؤں اور عیسائیوں کے گھروں کو جلا کر ظلم کیا گیا تو کیا آپ ان کی تعمیر کے لیے مالی معاونت کے لیے تیار ہیں؟‘

وقار بھٹی کی پوسٹ پر تبصرہ کرنے والے متعدد افراد نے تباہ شدہ چرچوں اور رہائشی مکانات کی تعمیر کے لیے مالی مدد کا عندیہ دیا۔

سہیل جمیل نے حکومتی ذمہ داری کی یادہانی کراتے ہوئے لکھا کہ ان کلیساؤں کی حفاظت جن کی ذمہ داری تھی انہیں ہی تعمیر کرنا چاہیے۔یہ کام حکومت کا ہے ہاں اگر حکومت اپیل کرے کہ عوام چندہ دیں تو یقینا حاضر ہیں۔ اگر جماعت اسلامی والے، الخدمت والے اس حوالے سے اگے بڑھیں تو بالکل چندہ دیا جائے گا یا کوئی اور مالی طور پر نیک نام ادارہ آگے آئے تو مدد کی جا سکتی ہے۔

جڑانوالہ متاثرین کے لیے امداد سوشل میڈیا پر ایک تحریک کی شکل اختیار کر رہی ہے وہیں صارفین متاثرین کی امداد کے لیے حکومت کو مختلف آئیڈیاز بھی دیتے نظر آرہے ہیں۔

ضیا الرحمان نے کالم نگار یاسرپیرزادہ کے کالم کا حوالہ دیتے ہوئے پوسٹ شئیر کی جس میں لکھا کہ سانحہ جڑانوالہ کا مداوا کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ پنجاب کے مدارس ایک فنڈ قائم کریں اور اُس میں عطیات جمع کرکے سانحے کے متاثرین کو پیش کریں اور کہیں کہ ہم شرمندہ ہیں ۔اگر ہم یہ بھی نہیں کرسکتے تو پھر باقی سب صرف باتیں ہیں، اگلے سانحے کا انتظار کریں۔


واضح رہے کہ جڑانوالہ حادثے کے بعد جہاں سول سوسائٹی کی جانب سے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج ریکارڈ کروائے گئے وہیں مذہبی جماعتوں کی جانب سے مساجد اور مدارس میں مسیحی برادی کو جگہ دینے اور ان کی امداد کرنے کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp