صنعتی حوالے سے خصوصی شہرت رکھنے والے پاکستانی شہر فیصل آباد میں مبینہ طور پر قرآن جلانے کے بعد پیش آنے والے پرتشدد واقعات کے متاثرین کے لیے پاکستانی انوکھی امدادی مہم چلا رہے ہیں۔
سوشل ٹائم لائنز پر کوئی ’متاثرہ بچوں میں کتابیں وبیگز‘ تقسیم کر رہا ہے۔ کوئی ’متاثرہ چرچ اور گھروں کی ازسرنو تعمیر کے لیے فنڈز جمع‘ کر رہا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مقامی پادری نے بتایا کہ انہیں ایک مسجد کے منتظمین نے پیشکش کی کہ وہ اپنی دعائیہ عبادت مسجد میں آ کر کر سکتے ہیں۔
اہلحدیث کے وفد نے آ کر ہمیں مسجد میں عبادت کرنے کی دعوت دی۔
پادری میجر معشوق مسیح
جڑانوالہ#Jaranwala pic.twitter.com/G4qa9paH0K— Asher Albert (@asher_albert) August 20, 2023
فیصل آباد کے علاقے جڑانوالہ میں پیش آنے والے ابتدائی واقعے کو کئی دن گزر چکے ہیں تاکہ ملک کے مختلف حصوں میں مقیم مسیحی افراد سے اظہار یکجہتی اور پرتشدد معاملے کی مذمت کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان میں حکومتی شخصیات سمیت مختلف سیاسی ومذہبی رہنماؤں کی جانب سے واقعے کی مذمت کے ساتھ متاثرین کی امداد کے اعلانات بھی کیے گئے تو سوشل ٹائم لائنز بھی اس معاملے پر پیچھے نہ رہیں۔
معاملے پر گفتگو کرنے والوں نے حکومت سے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا تو کئی افراد ایک قدم آگے بڑھ کر متاثرین کی مدد کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔
پاکستانی خاتون صحافی ترہب اصغر نے ایک تصویر پوسٹ کی جس میں ایک عمررسیدہ فرد کو ہاتھ میں جلی ہوئی کتاب اٹھائے دکھایا گیا ہے۔ ساتھ دیے گئے کیپشن میں لکھا کہ’انہوں نے میری پوتی کا اسکول بیگ اور کتابیں جلا دی ہیں۔‘
جواب میں سابق وزیراعظم شہباز شریف کی مشیر برائے امور نوجوانان شزہ فاطمہ خواجہ نے متاثرہ بچوں کو نئے اسکول بیگز اور کتابیں بھجوائیں۔
Thankyou @ShazaFK for sending them books and bags! https://t.co/9spDNG6MhC pic.twitter.com/c0MZTlynHr
— Tarhub Asghar (@tarhub) August 21, 2023
صارفین کا ماننا تھا کہ مسیحی برادری کا جو نقصان ہوا ہے وہ ناقابل تلافی ہے لیکن حکومت کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک قوم بن کر ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ متاثرین جلد از جلد معمول کی زندگی کی طرف واپس آ سکیں۔
اسلام آباد میں صحافت کے شعبے سے وابستہ وقار بھٹی نے فیس بک پوسٹ میں لکھا ’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ جڑانوالہ میں کلیساؤں اور عیسائیوں کے گھروں کو جلا کر ظلم کیا گیا تو کیا آپ ان کی تعمیر کے لیے مالی معاونت کے لیے تیار ہیں؟‘
وقار بھٹی کی پوسٹ پر تبصرہ کرنے والے متعدد افراد نے تباہ شدہ چرچوں اور رہائشی مکانات کی تعمیر کے لیے مالی مدد کا عندیہ دیا۔
سہیل جمیل نے حکومتی ذمہ داری کی یادہانی کراتے ہوئے لکھا کہ ان کلیساؤں کی حفاظت جن کی ذمہ داری تھی انہیں ہی تعمیر کرنا چاہیے۔یہ کام حکومت کا ہے ہاں اگر حکومت اپیل کرے کہ عوام چندہ دیں تو یقینا حاضر ہیں۔ اگر جماعت اسلامی والے، الخدمت والے اس حوالے سے اگے بڑھیں تو بالکل چندہ دیا جائے گا یا کوئی اور مالی طور پر نیک نام ادارہ آگے آئے تو مدد کی جا سکتی ہے۔
جڑانوالہ متاثرین کے لیے امداد سوشل میڈیا پر ایک تحریک کی شکل اختیار کر رہی ہے وہیں صارفین متاثرین کی امداد کے لیے حکومت کو مختلف آئیڈیاز بھی دیتے نظر آرہے ہیں۔
ضیا الرحمان نے کالم نگار یاسرپیرزادہ کے کالم کا حوالہ دیتے ہوئے پوسٹ شئیر کی جس میں لکھا کہ سانحہ جڑانوالہ کا مداوا کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ پنجاب کے مدارس ایک فنڈ قائم کریں اور اُس میں عطیات جمع کرکے سانحے کے متاثرین کو پیش کریں اور کہیں کہ ہم شرمندہ ہیں ۔اگر ہم یہ بھی نہیں کرسکتے تو پھر باقی سب صرف باتیں ہیں، اگلے سانحے کا انتظار کریں۔
سانحہ جڑانوالہ کا مداوا کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ پنجاب کے مدارس ایک مشترکہ فنڈ قائم کریں اور اُس میں عطیات جمع کرکے جڑانوالہ سانحے کے متاثرین کو پیش کریں اور کہیں کہ ہم شرمندہ ہیں ۔اگر ہم یہ بھی نہیں کرسکتے تو پھر باقی سب خالی خُولی باتیں ہیں، اگلے سانحے کا sir @YasirPirzada shb https://t.co/m3F4EnAWSV
— Zia Urrehman (@ZiaUrre41751591) August 21, 2023
واضح رہے کہ جڑانوالہ حادثے کے بعد جہاں سول سوسائٹی کی جانب سے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج ریکارڈ کروائے گئے وہیں مذہبی جماعتوں کی جانب سے مساجد اور مدارس میں مسیحی برادی کو جگہ دینے اور ان کی امداد کرنے کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔