جڑانوالہ میں 16 گرجا گھروں کو آگ لگائی گئی، مسیحی خاندانوں نے جانیں بچانے کے لیے کھیتوں میں چھپ کر رات بسر کی۔
ذرائع کے مطابق صبح 8 بج کر 15 منٹ پر 70سے 80 افراد نے احتجاج شروع کیا اور کاروباری مراکز بند کرائے، شہر اور کئی دیہات کی مساجد میں اعلانات کے بعد لوگ جڑانوالہ پہنچے۔
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق کرسچن کالونی میں 11بجے مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی، چرچ اور گھروں کو آگ لگائی۔ اسسٹنٹ کمشنر کےگھر کو بھی آگ لگائی، عیسیٰ نگری میں 15 گھروں اور 3 گرجا گھروں کو آگ لگائی، پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
دریں اثنا فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں مبینہ توہین مذہب کے معاملے پر توڑ پھوڑ اور مسیحی عبادت گاہوں کو جلانے کے مقدمہ میں گرفتار مرکزی ملزمان راجہ عامر اور اس کے بھائی راکی مسیح کو سی ٹی ڈی کی جانب سے گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا اور ان سے تفتیش جاری ہے۔
جڑانوالہ میں توہین مذہب کے مبینہ واقعہ پر ہونے والے مظاہروں کے دوران گرجا گھروں اور مسیحی آبادیوں میں توڑ پھوڑ کرنے کے الزام میں پانچ مقدمات درج کر کے 128 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والے ملزموں میں مساجد میں اعلانات کر کے لوگوں کو اشتعال دلانے والا ملزم یٰسین بھی شامل ہے۔
اس واقعے سے متعلق مقدمات کے نامزد ملزموں میں امیر جماعت اہلسنت مفتی محمد یونس اور ضلعی رہنما تحریک لبیک آصف اللہ شاہ بخاری بھی شامل ہیں جن کو پرتشدد ہنگامہ آرائی کی قیادت کرنے کے الزام میں نامزد کیا گیا ہے۔
کچھ ذرائع یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ ان واقعات کے پیچھےبھارتی ایجنسی را کا ہاتھ ہے۔ اس لئے کہ انڈیا اور کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کو پورے انٹرنیشنل میڈیا پر دکھایا جا رہا ہے اپنی خجالت مٹانے کے لیے انڈیا کی جانب سے ایسی کوئی بھی کارروائی خارج از امکا ن نہیں۔ لیکن، میرا سوال صوبائی انتظامیہ سے ہے کہ جس وقت قرآن پاک کی بے حرمتی کی خبر ملی پوری انتظامیہ کو الرٹ ہو جاناچاہیے تھا لیکن لگتا یہی ہے کہ وہ شرپسندوں کے جمع ہونے کا انتظار کرتے رہے۔
علاقے کے ایس ایچ او کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ فوری افسران بالا کے علم میں لا کر اضافی نفری طلب کرتا اور کرسچن آبادیوں اور چرچز کی حفاظت پر لگا دیتا۔ اسی طرح شہری انتظامیہ بھی اگر فوری طور پر اقدامات کرتی تو اس سانحے سے بچا جا سکتا تھا۔
جس وقت کسی شرپسند نے مسجد سے اعلان کر کے لوگوں کو اکٹھا کرنے کی اپیل کی تو اسے اسی وقت گرفتار کر لینا چاہیے تھا۔ میرا تجربہ ہے کہ اگر پولیس کا پہلا ایکشن ہی فوری اور جارحانہ ہو تو لوگ کم ہی لوگ باہر نکلنے کی ہمت کرتے ہیں۔ جس کا مظاہرہ 9 مئی کے واقعے کے بعد پوری قوم نے دیکھا کہ آج ایک سیاسی پارٹی کے کارکنان دور دور تک نظر ہی نہیں آتے۔ لیکن جڑانوالہ میں پولیس ابتدا ہی سے دفاعی پوزیشن پر چلی گئی اور شرپسندوں کو حوصلہ ملتا گیا۔
میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ بعض معاملات علاقہ ایس۔ ایچ۔ او کو کچھ فوری اقدامات خود صرف اور صرف اپنی ذمہ داری پر اٹھانے پڑتے ہیں اور یہی وقت ہوتا ہے جب ایک ایس۔ ایچ۔ او کی اس قابلیت اور پیشہ ورانہ تجربے کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔
مجھے یاد ہے بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پھوٹنے والے ہنگاموں کے بعد پورے پاکستان کی طرح جس سندھ میں شرپسندی کے واقعات ہوئےان میں کراچی بھی سرفہرست تھا۔ میں اس بات کا شاہد ہوں کی پوری کراچی پولیس تھانوں میں محصور ہو گئی تھی لیکن میں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ چند ایس۔ایچ۔ اوز جن میں ملیر ضلع کا ایک ایس۔ ایچ۔ او بھی شامل تھا اپنے چند ملازمان کے ساتھ اپنے طور پر عوام کی جان و مال بچانے کے لئے شرپسندوں کو منتشر کرنے کی کوشش کرتا رہا کیونکہ اس دن وائرلیس سیٹ پر بھی کوئی اعلی افسر جواب نہیں دے رہا تھا۔
یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ایک اچھا اور پروفیشنل پولیس افسر وہی کہلاتا ہے جو اپنے سامنے ہونے والے کسی بھی واقعہ کی نوعیت کو جانچتے ہوئے، جس میں عوام کی جان و مال کو خطرہ محسوس ہو، خود اپنے طور بھی فوری ایکشن لیتا ہے نہ کہ افسران بالا کو میسیج دینا اور پھر ان کے احکامات کا انتظار کرنا۔ کیونکہ ایسے حالات میں عموما یہی دیکھا گیا ہے کہ افسران بالا کوئی واضح حکم دینے سے کتراتے ہیں اور یہی کہا جاتا ہے کہ “دیکھ لو اپنے طور پر کیا کر سکتے ہو”۔ اس ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کسی بھی سانحے کے ہونے کے بعد گرفتاریاں اور مقدمات کا آج تک نتیجہ کیا نکلا؟
ماڈل ٹاون کا سانحہ ہو، کراچی میں 12 مئی 2007 کا سانحہ ہو، 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد بپا ہونے والے سانحات ہوں، آج تک ان کے مقدمات عدالتوں میں یا تو پینڈنگ ہیں یا کچھ زیر سماعت ہیں۔ اصل ملزمان اب تک نہیں پکڑے گئے، جو کچھ پکڑے گئے تھے یا تو بری ہو گئے یا ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔ اس لیے ماضی کے ان واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نہیں سمجھتا کہ اب پولیس کی بھاگ دوڑ اور پکڑ دھکڑ کا کوئی مثبت نتیجہ نکلے گا۔ جن کے گھر جل کر تباہ ہو گئے ان کو تسلیاں ضرور دی جائیں گی اور کچھ نہ کچھ مدد بھی کر دی جائے گی لیکن جو زخم اس ملک کی سلامتی پر لگ گیا وہ مندمل نہیں ہو گا۔
میری ناقص رائے میں یہ سانحہ انتظامیہ کی بزدلی اور غیرپیشہ ورانہ رویہ اختیار کرنے کی وجہ سے پیش آیا۔ پڑوس میں جب پولیس اور دیگر ادارے جتھوں کے سامنے نہیں آتے تو ہم ان پر جانبداری کا الزام لگاتے ہیں یہی کام جب جڑانوالہ میں انتظامیہ نے ہونے دیا تو اسے جانبداری نہیں کہیں گے؟
قانون کا تقاضہ یہی ہے کہ انتظامیہ کے ان ذمہ داران کے خلاف بھی اعانت جرم کا مقدمہ قائم کرنا چاہیے جو اس دن موقع پر موجود رہے اور اپنے سامنے لوگوں کے گھروں اور مذہبی مقامات کو جلتے دیکھتے رہے۔ ایسا کرنے سے امید ہے کہ مستقبل میں کسی ایسے بڑے سانحے سے بچا جا سکے۔