ہمارے یہاں صحافت آزاد نہ سہی صحافی پوری طرح آزاد ہے۔ آپ اتفاق نہیں کرتے تو ساتھ رہیں شاید کہیں اتفاق رائے ہو ہی جائے۔ یہ سن 2000 کے اوائل کی بات ہے جب ایک اردو اخبار سے منسلک انتہائی ’سینئر‘ اور ’تجربہ کار‘ رپورٹر نے خبر دے دی کہ ایک بڑی جماعت کی بزرگ خاتون رہنما جو علیل تھیں انتقال کر گئیں۔
ان دنوں پرائیوٹ ٹی وی چینلز تھے نہ ہی ڈھنڈورا پیٹنے میں ماہر نیوز اینکرز۔ ایک چیز ہوا کرتی تھی ’ضمیمہ‘ یعنی اخبار، تو صبح یا شام کو شائع ہوتا اور اگر اس سے ہٹ کر اچانک کوئی بہت بڑی خبر آجائے تو اس کےلیے باقی خبروں کی جگہ تبدیل کرنے کی بجائے علیحدہ سے شائع کر دیاجاتا تھا جسے ضمیمہ کہتے تھے۔
اس اخبار نے بھی اس بڑی خبر پر ضمیمہ شائع کردیا۔ پارٹی نے اپنی رہنما کے انتقال کی خبر کی سختی سے تردید کردی۔ لیکن رپورٹر اپنی خبر پر قائم رہا کہ انتقال ہوچکا ہے پارٹی کی جانب سے خبر چھپائی جارہی ہے۔ ہم ان دنوں صحافت میں نووارد تھے سوچا اتنے سینئر رپورٹر ہیں اپنی خبر پر قائم بھی ہیں تو ٹھیک ہی ہوں گے۔ کئی سالوں بعد جب ان خاتون رہنما کا حقیقت میں انتقال ہوا تو وہ اخبار بھی یاد آگئی اور وہ صحافی صاحب بھی۔ اس وقت تک ان کی کچھ اور بڑی خبریں بھی سامنے آچکی تھیں جن پر صرف وہی قائم تھے۔
ایک اور واقعہ جب ایک ٹی وی چینل پر اس وقت کے صوبہ سرحد اور آج کے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے سیاسی رہنما کے انتقال کی خبر چل گئی ٹی وی چینل نے ان کے صاحبزادے کو تاثرات دینے کےلئے لائن پر لیا تو ان صاحب نے نیوز اینکر سے پوچھا کہ آپ کو یہ اطلاع کس نے دی۔ نیوز اینکر نے اپنے نمائندے کے ’ باوثوق ذرائع‘ کا بتایا جس پر انہوں نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ بی بی جب میں کہہ رہا ہوں میرے والد زندہ تو آپ کیوں نہیں مان رہے۔ اس رپورٹر سے یقیناً کسی نے پوچھا ہوگا تو وہ بھی اپنی خبر پر قائم رہا ہوگا یہی کہہ دیا ہوگا بات پکی ہے بس چھپائی جارہی ہے۔
اب آجائیں آج کل میں جو کچھ بٹگرام میں ہوا۔ ابھی ریسکیو آپریشن شروع ہوا تھا تو کچھ لوگوں نے کامیاب کرا دیا۔ اسی طرح جب ایک بچہ ریسکیو کیا گیا تو لوگوں نے 2 بچوں کی خبر چلا دی۔ کسی ایک بھی بڑے میڈیا ادارے کا نمائندہ وہاں موجود نہیں تھا اور سنی سنائی چیزوں کو آگے چلایا جا رہا تھا۔
اس سے پہلے نگران وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر چلنے والی خبروں کو ہی دیکھ لیں۔ کچھ لوگ تو اس بات پر ڈٹ گئے تھے کہ حفیظ شیخ کو نگران ویر اعظم بنایا جارہا ہے۔ ان کو اسلام آباد پہنچا کر سرکاری رہائش گاہ تک دے دی گئی تھی۔
اسی طرح کچھ لوگوں نے اسحاق ڈار کو نگران وزیر اعظم بنانے کے معاملے پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو متفق کرا دیا تھا۔ موجودہ نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی بھی پہلے نگران وزیر اعظم بن گئے تھے ان کے گھر پر سرکاری پروٹوکل بھی پہنچ چکا تھا۔ یہ وہ تمام خبریں ہیں جو گزشتہ ہفتوں کے دوران میڈیا پر ’بریک‘ کی گئیں۔ ان خبروں کا سورس کیا تھا انتہائی باخبر ذرائع، کوئی نام کسی ذمہ دار حکومتی رکن کی زبانی سامنے نہیں آیا سب کے پیچھے وہی باوثوق ذرائع تھے۔
اب ہوا کیا جب ویر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی آخری روز کی ملاقات ختم ہوئی تو ہم نے انہی باخبر ذرائع سے بتادیا کہ کسی نام پر اتفاق نہیں ہوسکا کیونکہ ہمیں کوئی نام جو نہ مل سکا تھا جب قائد حزب اختلاف نے سب کے سامنے آکر ایک ایسے نام کا اعلان کردیا جو ہماری فہرست میں ہی نہیں تھا ہماری ساری خبریں، تبصرے ،اندازے غلط ثابت ہوئے تو ہم نے کہہ دیا کہ یہ نام تو کہیں اور سے آیا ، آخری وقت پر دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ بھائی مان لو ہم خبر نہیں نکال سکے ہماری خبر درست نہیں ہوئی ملک میں دہائیوں سے سیاست کرنیوالوں کو انڈر ایسٹیمیٹ تو نہ کرو جو کئی ہفتوں سے مشاورتوں پر مشاورتیں کرتے چلے آرہے تھے۔
ہماری صحافت میں ایسی مثالوں کے ڈھیر لگے ہیں جب میڈیا نے اپنے انہی باخبر اور با وثوق ذرائع کے ساتھ خبر دے دی معاملہ کچھ اور ہوگیا تو کہہ دیا کہ نہیں پہلے ایسا ہی ہوا تھا بعد میں فیصلہ تبدیل کیا گیا یا پھر کہہ دیا اصل بات چھپائی جارہی ہے رپورٹر اپنی خبر پر قائم ہے۔ اور یقین جانیں خبر سننے یا پڑھنے والے اس پر اعتبار کرلیتے ہیں اور بعد میں اگر ویسا نہ ہو تو وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ فیصلہ تبدیل کرلیا گیا یا حقائق چھپائے گئے۔
قارئین اور ناظرین تو خبر باؤنس ہونے کی صحافتی اصطلاح سے واقف ہوتے ہی نہیں۔ کیونکہ یہاں خبر باؤنس ہونے کی روایت ہی نہیں رپورٹر جو آخر تک خبر پر قائم رہتا ہے تو خبر کیسے اور کون غلط ثابت کرے گا۔ جب صحافی کوئی بھی سنی سنائی اور من گھڑت خبر جسے صحافتی زبان میں ٹیبل سٹوری بھی کہتے ہیں اپنے باوثوق ذرائع کے ذمے ڈال کر دے دے اور پھر سینہ تان کر یہ کہہ دے کہ صحافی سے اس کے ذرائع پوچھے نہیں جاسکتے اور پھر کوئی خود کہے کہ وہ زندہ ہے اور رپورٹر اسے مردہ کہنے کی خبر پر قائم رہے تو اس سے زیادہ آزاد کون ہوگا۔
ہاں کچھ مروجہ ’ریڈ زونز‘ ہیں جو صحافی صحافت سے پہلے ہی جان لیتے ہیں کہ بھائی یہاں کی خبر دینا اپنی ذمہ داری اور پھر اس پر قائم رہنا اپنی ہی ’ہمت ‘ پر منحصر ہے باقی آپ مکمل آزاد ہیں صرف خبر پر قائم رہنے کی ’ڈھٹائی‘ ہونی چاہئے کیونکہ خبر درست ہو تو خبر قائم رہتی ہے رپورٹر کو اس پر قائم رہنے کی دہائی نہیں دینی پڑتی۔